تفریح کے لیے قتل، امریکی فوجیوں پر مقدمہ
28 اکتوبر 2011اس سے پہلے ہونے والی سماعتوں میں ان فوجیوں کی جانب سے عام شہریوں کو ہلاک کرنے کے واقعات کی لرزہ خیز تفصیلات پیش کی گئی تھیں۔ ان فوجیوں نے نہتے افغان باشندوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی انگلیاں کاٹ کر بطور یادگار اپنے پاس رکھ لی تھیں اور لاشوں کے ساتھ تصویریں کھنچوائی تھیں، جس سے عراق کی بدنام زمانہ ابو غریب جیل کے واقعات کی یاد تازہ ہو گئی۔
سارجنٹ کیلون گبز پر قتل عمد کے تین الزامات کے علاوہ حملہ کرنے، دھمکیاں دینے اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی کے الزامات بھی ہیں۔
امریکی فوج کے ایک بیان کے مطابق اگر اسے تمام الزامات میں قصور وار ٹھہرایا گیا تو اسے زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا کا سامنا ہو سکتا ہے۔ کورٹ مارشل کے مقدمے کی کارروائی 4 نومبر تک چلے گی تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اس کی طوالت کا انحصار وکلائے صفائی کے دلائل پر ہو گا۔
جنوری تا مئی 2010ء کے دوران افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار میں پانچ امریکی فوجیوں پر تین افغان باشندوں کی ہلاکت کا الزام لگایا گیا ہے۔ ان فوجیوں کا تعلق ریاست واشنگٹن کے 5th Stryker Brigade سے تھا۔
ان میں سے تین فوجی اپنے ساتھی ملزمان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔ رواں برس مارچ میں 23 سالہ اسپیشلسٹ جیریمی مورلوک نے ان ہلاکتوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا، جس پر اسے قتل خطا اور ماری یوآنا کے غیر قانونی استعمال کے الزام میں 24 برس قید کی سزا سنائی گئی اور فوج سے نکال دیا گیا۔ اگست میں 23 سالہ اسپیشلسٹ ایڈم ونفیلڈ کو بھی انہی الزامات میں تین برس قید کی سزا سنائی گئی جبکہ گزشتہ ماہ 21 سالہ پرائیویٹ فرسٹ کلاس اینڈریو ہومز کو سات برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
جرمن رسالے ڈیئر اشپیگل نے مارچ میں ان کی تین لرزہ خیز تصاویر شائع کی تھیں، جن میں مورلوک اور ہومز ایک لاش کا خون آلودہ سر اٹھائے دکھائی دے رہے تھے۔
نومبر 2010ء میں گبز کے وکیل صفائی فلپ اسٹیک ہاؤس نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے مؤکل کا ان ہلاکتوں میں کوئی کردار نہیں تھا۔
گبز کے علاوہ مائیکل ویگنن نامی ایک اور فوجی بھی ہلاکتوں میں مبینہ کردار کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کا منتظر ہے۔ پینٹاگون نے تسلیم کیا ہے کہ یہ الزامات اور تصاویر امریکی فوج کے لیے بدنامی کا باعث ہیں مگر اس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ افغانستان میں تعینات ایک لاکھ کے قریب امریکی فوجیوں میں سے بہت کم کے رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عاطف بلوچ