برطانیہ میں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ
21 مئی 2009وزیر اعظم براؤن نے ٹوری پارٹی کے وقت سے پہلے عام انتخابات کے حالیہ مطالبے کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ یوں ملک میں مزید سیاسی بے یقینی پیدا ہو گی۔ ان کے مطابق اسپیکر سمیت متعدد پارلیمانی ممبران کی طرف سے بدعنوانی کے باعث عوامی ردعمل بہت شدید ہے اور ایسے وقت میں انتخابات کا انعقاد ملک میں افراتفری کا باعث بن سکتا ہے۔ گورڈن براؤن کے بقول اس وقت برطانیہ میں معاشی مسائل کا کامیابی سے مقابلہ کہیں زیادہ ضروری ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم کہتے ہیں: "جب ملک کساد بازاری کا شکار ہواور حکومت معیشت میں بہتری کی کوششیں کر رہی ہو تو یکدم انتخابات کے انعقاد کا نتیجہ سیاسی عدم اطمینان میں اضافے کی صورت میں نکل سکتا ہے"
گورڈن براؤن کے اس موقف کے جواب میں کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ ڈیوڈ کیمرون نے براؤن سے پوچھا کہ وہ جس ہنگامے کی بات کررہے ہیں، انہیں اس کی وضاحت بھی کرنا چاہئے۔ برطانیہ میں اس وقت سیاسی اور معاشی صورت حال کی وجہ سے سیاسی کشمکش کا عالم یہ ہے کہ وزیر اعظم براؤن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس سے بڑا ہنگامہ کیا ہوگا کہ الیکشن کے نتیجے میں قدامت پسند اقتدار میں آ جائیں۔
ڈیوڈ کیمرون کے مطابق برطانوی حکومت پر عوام کا اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’بے شک میں اپنے پارلیمانی ممبران سے کچھ رقم واپس حاصل کرسکتا ہوں۔ ہم قوانین میں تبدیلی لا کر انہیں بہتر بھی بنا سکتے ہیں۔ اور یہ میں پہلے ہی کر بھی چکا ہوں۔ مگر درحقیقیت عوام کی خواہش ہے کہ وہ اپنی پسند کے سیاستدان چنیں جو پارلیمان میں ان کی نمائندگی کریں۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ قبل از وقت عام انتحابات کرائے جائیں‘
بدھ کے روز دارالعوام نے حکومتی جماعت کے دو ممبران کی رکنیت معطل کردی تھی۔ اس بحرانی صورت حال میں اپنی ساکھ بنائے رکھنے کے لئے لیبر پارٹی اخراجات کے معائنے اور ان میں کمی سے متعلق ایک نیا قانونی مسودہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔
برطانیہ میں معمول کے مطابق اگلے عام الیکشن 2010 میں ہوں گے لیکن عوامی جائزوں میں وزیر اعظم براؤن کی مقبولیت کئی ہفتوں سے مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 12 برسوں سے برسر اقتدار لیبر پارٹی کے لئے اگلے انتخابات، یا قبل ازوقت الیکشن سیاسی طور پر بہت تباہ کن بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔