اسرائیل: فائر بندی کے لئے بین الاقوامی مطالبات مسترد
31 دسمبر 2008بین الاقوامی اپیلوں کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملے آج پانچویں روز بھی جاری ہیں۔ ہسپتالوں کے ذرائع کے مطابق ستائیس دسمبر سے اب تک کی اسرائیلی فوجی کارروائی کے نتیجے میں غزہ پٹی میں 385 افراد ہلاک اور 800 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے منگل کو رات گئے اپنے اعلامیے میں کہا کہ نہ صرف فلسطینی تنظیم حماس کو اسرائیلی سرزمین پر اپنے راکٹ حملے بند کر دینے چاہییں بلکہ اسرائیل کو بھی غزہ کے خلاف اپنی فوجی کارروائی روک دینی چاہیے۔ مزید یہ کہ تمام سرحدی گذر گاہیں کھول دی جانی چاہییں اور امدادی تنظیموں کو بغیر کسی روک ٹوک کے اَشیائے ضرورت غزہ میں لے جانے کی اجازت دینی چاہیے تاکہ وہاں کے انسانوں کو اشد ضروری ادوویات، خوراک اور ایندھن مل سکے۔
فائر بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے برطانوی وزیرخارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے ٹیلی وژن چینل سی این این کو بتایا:’’میرے خیال میں اِس تنازعے کے سلسلے میں یورپی یونین کو اپنا کردار ایک تو ایسے بیانات کی شکل میں ادا کرنا چاہیے، جن میں فوری فائر بندی پر زور دیا گیا ہو۔ یورپی یونین کا ایک اور کردار انسانی بھلائی کا بھی ہے۔ یورپی یونین بڑے پیمانے پر وہ رقوم فراہم کر سکتا ہے، جن کی مدد سے غزہ کی آبادی کو اشد ضروری خوراک، ایندھن اور ادویات فراہم کی جا سکیں۔ یورپی یونین کا ایک تیسرا کردار یہ ہے کہ وہ مشرقِ وُسطےٰ تنازعے کو حل کرنے میں مدد دے۔ ہمیں ایک فلسطینی ریاست اور اُس کی معیشت کے تحفظ کا پہلو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
یورپی یونین کے اِس اعلامیے میں امن عمل کو اَینا پولِس کانفرنس کی روشنی میں تیز تر کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ نومبر دو ہزار سات میں امریکہ میں اَیناپولِس کے مقام پر منعقدہ مشرقِ وُسطےٰ کانفرنس میں دیگر باتوں کے علاوہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔
پیرس میں بلائے گئے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اِس ہنگامی اجلاس سے کچھ ہی پہلے یونین کے صدر ملک کی حیثیت سے بھی فرانس سے اڑتالیس گھنٹے کی فائر بندی کی تجویز پیش کی تھی۔ فرانسیسی وزیر خارجہ بیرنارد کُشنَیر نے کل کی کانفرنس کے موقع پر نشریاتی ادارے TF1 سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’فائر بندی پائیدار بنیادوں پر ہونی چاہیے اور اِس کی پاسداری بھی ہونی چاہیے۔ اِس کے بعد تشدد کے واقعات پھر سے شروع نہیں ہو جانے چاہییں۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں یقین ہے کہ اِس تنازعے کا کوئی فوجی نہیں بلکہ سیاسی حل ہونا چاہیے، جو کہ ہم تلاش کر رہے ہیں۔ ہم بدستور امن کے قیام کے لئے کوشاں رہیں گے۔‘‘
جواب میں آج اسرائیل نے اِس تجویز کو غیر مفید قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور جواز یہ بتایا کہ اِس ممکنہ یکطرفہ فائر بندی کے باوجود حماس کی جانب سے راکٹ حملے بند ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے حوالے سے ایک اسرائیلی ذریعے نے بتایا کہ غزہ کے خلاف فوجی آپریشن اُس وقت تک جاری رکھا جائے گا، جب تک کہ اِسرائیل پر راکٹ حملے بند کروانے کا مقصد حاصل نہیں ہو جاتا۔
اِس سے پہلے بتایا جا رہا تھا کہ کچھ اسرائیلی حلقوں میں فائر بندی کی تجویز پر ابھی غور جاری ہے۔ اِس بارے میں اسرائیل کے سماجی امور کے وزیر ہَیرسوگ نے کہا تھا:’’ہم زمینی حملے اور دیگر کارروائیوں کے امکانات کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ تاہم ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی تجاویز آ رہی ہیں اور یہ اہم بات ہے کہ اِن تجاویز کو جانچا جائے، خاص طور پر اُس صورت میں، جب یہ انسانی بھلائی کی صورتِ حال کی بنیاد پر پیش کی گئی ہوں۔‘‘
اطالوی روزنامے ’’لا ری پُبلیکا‘‘ کے مطابق یورپی یونین کی ششماہی صدارت کےاختتام سے کچھ ہی پہلے نکولا سارکوزی ایک بار پھر اُسی طرح کی ایک بڑی سفارتی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں، جیسی اُنہیں اگست میں اوسیتیہ کی جنگ کے موقع پر ملی تھی۔ تاہم یہ توقعات شاید پوری نہ ہوں کیونکہ تب معاملہ روس اور جارجیا کا تھا اور اب اسرائیل اور حماس کا ہے۔ ویسے بھی تمام یورپی ممالک کا مَوقِف ایک سا نہیں ہے۔ اسرائیلی مَوقِف کے لئے جرمنی کی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ یورپی ممالک میں ایک ہی آواز ایسی ہے، جسے کوئی بھی، حتیٰ کہ اوبامہ بھی نظر انداز نہیں کر سکتے اور وہ آواز فرانسیسی نہیں بلکہ جرمن بولتی ہے۔
اسی دوران اسی اسرائیلی فلسطینی تنازعے پر بات کرنے کے لئےمصری دارالحکومت قاہرہ میں عرب لیگ کے وُزرائے خارجہ کا خصوصی اجلاس شروع ہو گیا ہے۔ اِس موقع پر سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے کہا کہ اگر فلسطینی قوم کسی ایک قیادت کے پیچھے متحد ہوتی تو اِس ہولناک قتلِ عام کی نوبت نہیں آتی۔
دریں اثناء روس نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ کی ناکہ بندی ختم کردے تو حماس اپنے راکٹ حملے بند کرنے کے لئے تیار ہے۔