1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی اخبارات: موجودہ تنازعے میں اسرائیل اور حماس دونوں قصوروار ہیں

ڈوئچے ویلے، شعبہ اُردو، بون30 دسمبر 2008

یورپی اخبارات نے اپنے ملے تبصروں میں ایک جانب غزہ پٹی پر حماس کی حکمرانی میں ہونے والے جبر و تشدد اور استحصال کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے تو دوسری جانب عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے اسرائیلی طرزِ عمل کی بھی مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/GPRJ
جرمن اخبارات میں غزہ کی تازہ صورتحال کو نمایاں جگہ دی گئیتصویر: AP

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اُس کے اِن حملوں کا مقصد حماس کو کچلنا ہے۔ تاہم فرانسیسی اخبار ’’لے موند‘‘ کے مطابق اسرائیل کو اِس تلخ حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ یہ حملے اِس انتہا پسند فلسطینی تنظیم کو اور بھی مضبوط بنا دیں گے کیونکہ یہ حملے اِس تنظیم کے مفروضوں کو درست ثابت کرتے نظر آ رہے ہیں۔

Bildgalerie Nach den Wahlen Presseschau Türkei
یورپ کے تمام ہی اخبارات میں اسرائیل۔فلسطین تنازعے پر رپورٹیں، تبصرے اور جائزے شائع ہورہے ہیںتصویر: AP

اِسی طرح کا تبصرہ پیرس ہی سے شائع ہونے والے ایک اور فرانسیسی اخبار ’’لبراسیوں‘‘ کا بھی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ حماس نے تشدد، دھمکیوں اور بے رحمانہ استحصال کی مدد سے غزہ پٹی میں اپنی حکمرانی قائم کی ہے۔ اب اسرائیل، جسے اپنے حق بجانب ہونے ا ور اپنی طاقت کا یقین ہے، غزہ پٹی کے ایک اعشاریہ پانچ ملین انسانوں کو سزا دے رہا ہے۔ لیکن اسرائیل کے لئے خطرہ یہ ہے کہ حماس کے وجود کو ایک نیا جواز مل جائے گا، جیسا کہ عرب اور مسلم دُنیا میں ہونے والے مظاہرے ظاہر کرتے ہیں۔ اخبار کے مطابق حماس اِس حملے سے بچ گئی تو وہ ایک فاتح کے طور پر اور بھی زیادہ مقبول بن کر اُبھرے گی۔

Israel Palästinenser Angriff auf Gaza
اسرائیل کے میزائل حملوں میں شمالی غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہےتصویر: AP

برطانوی اخبار ’’ٹائمز‘‘ کے خیال میں اسرائیل کے پاس جوابی کارروائی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اخبار نے حماس کی قیادت کو ہدفِ تنقید بنایا ہے، جو خود چھپ گئی ہے اور اسرائیلی حملوں کا سامنا کرنے کے لئے اپنے عوام کو اکیلا چھوڑ دیا ہے۔

EU-Gipfel in Brüssel - Angela Merkel
وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے ایک بیان میں حماس تحریک سے کہا کہ وہ اسرائیلی علاقوں پر راکٹ حملے بند کرےتصویر: AP

جرمن شہر ہیمبرگ سے شائع ہونے ولے اخبار ’’فائنانشل ٹائمز جرمنی‘‘ کے خیال میں اسرائیل زیادہ دیر تک یہ جنگی کارروائی جاری نہیں رکھ سکے گا کیونکہ اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کی زیادہ تعداد میں ہلاکتیں موجودہ حکمران کادیمہ پارٹی کے لئے ایک بڑا بوجھ ثابت ہو سکتی ہیں۔ ایسے میں یوں نظر آ رہا ہے کہ حماس کی جانب سے فائر بندی کی کسی بھی پیشکش کو اسرائیل فوری طور پر قبول کر لے گا۔

تاہم جرمن اخبار ’’زوڈ ڈوئچے‘ کے مطابق نہ اسرائیل اقوامِ متحدہ کی شرائط پر امن کا خواہاں ہے اور نہ ہی فلسطینی مفاہمت کے لئے تیار ہیں۔ اخبار کے مطابق یہ نئی غزہ جنگ اِس بات کا ثبوت ہے کہ جب تک مسئلہء فلسطین حل نہیں ہو گا، مشرقِ وُسطےٰ میں امن قائم نہیں ہو گا۔

جرمن شہر فرینکفرٹ ام مائن سے شائع ہونے والے اخبار ’’فرانکفُرٹر الگمائنے‘‘ کے خیال میں اِس وقت فائر بندی ہی سب سے بہترین حل نظر آ رہا ہے۔ حملے دونوں جانب سے بند ہونے چاہیں، تاہم یہ بات انتہا پسند فلسطینیوں کے مفاد میں نہیں۔ بدلے میں اسرائیل کو بھی غزہ پٹی کی ناکہ بندی نرم بلکہ ختم کرنا ہو گی۔