1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہودیوں پر حملہ کرنے والا مشتبہ شخص گرفتار

20 اپریل 2018

جرمن دارالحکومت برلن میں ایک شخص کو دو اسرائیلی شہری کو یہودیوں کی مخصوصی ٹوپی سے پہچاننے کے بعد بیلٹ سے ان پر حملہ کرنے کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2wOnO
Screenshot Youtube Antisemitischer Angriff in Berlin
تصویر: Jüdisches Forum JFDA

یہ واقعہ برلن کے وسطی حصے میں پیش آیا تھا اور اس حملے کا شکار ہونے والے دو افراد میں سے ایک نے اس حملہ آور کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی تھی، جو وائرل ہو گئی۔ اس ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ جرمنی میں سامیت دشمنی کے جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس انداز کے یہود مخالف معاملات میں مسلم مہاجرین بھی شامل ہیں۔

جرمنی: سامیت مخالف حملہ، سیاسی و مذہبی لیڈروں کی شدید مذمت

جرمن امدادی ادارے کی فیس بک پر سامیت مخالف پوسٹ کی تحقیقات

پچاسی سالہ فرانسیسی یہودی خاتون کا قتل، وجہ سامیت دشمنی

پولیس کے مطابق اس واقعے کی فوٹیج کے ذریعے 19 سالہ نوجوان کو حراست میں لیا گیا ہے، جب کہ اس واقعے کی عدالتی چارہ جوئی بھی شروع ہو گئی ہے۔

جرمن اخبار بلڈ کے مطابق یہ حملہ آور شام سے تعلق رکھنے والا ایک فلسطینی ہے، جس کا نام کنعان ایس ہے اور یہ برانڈنبرگ کے علاقے میں بطور مہاجر رجسٹرڈ ہے مگر حالی ہی میں اس نے برلن میں رہنا شروع کیا تھا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں ایک نوجوان ’یہودی‘ کہہ کر بیلٹ سے حملہ کرتا نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے اس کہانی میں ایک دلچسپ موڑ اس وقت پیدا ہوا، جب یہ ویڈیو بنانے والے 21 سالہ طالب علم آدم نے بتایا کہ وہ ایک اسرائیلی عرب ہے۔

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے اس کے ایک یہودی دوست نے اسے یہ ٹوپی دی تھی اور اسے کہا تھا کہ وہ یہ دیکھے کہ آیا برلن میں کسی سڑک پر وہ یہ ٹوپی پہننے کے بعد محفوظ ہو گا؟

اس کا کہنا تھا کہ اس نے یہ ویڈیو انٹرنیٹ پر اس لیے پوسٹ کی، تاکہ پولیس، جرمن عوام بلکہ پوری دنیا دیکھے کہ برلن کی سڑکوں پر یہودیوں کے لیے کس حد تک کے مسائل موجود ہیں۔

واضح رہے کہ جرمنی میں حالیہ کچھ عرصے میں سامیت مخالف جذبات اور حملوں دونوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جن میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں، جب کہ سن 2015ء میں مسلم مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد کی جرمنی آمد بھی اس معاملے میں ایک اہم محرک سمجھی جاتی ہے۔

ع ت / م م