یہ محض ایک ریستوراں نہیں!
22 اکتوبر 2016محمد الجاسم شام کا ایک کرد شہری ہے۔ اُس نے شمالی شام میں مقامی بے گھر افراد کے لیے قائم ریڈ کراس کے مرکز میں کھانا پکانا سیکھا۔ جب شام میں جنگ نے شدت اختیار کی تو وہ ترکی، سربیا اور ہنگری کے راستے ہوتا ہوا آسٹریا پہنچا۔ آج کل وہ ویانا میں رہ رہا ہے،جہاں سیاسی پناہ کی اُس کی درخواست منظور ہو چکی ہے۔ وہ ابھی بھی کھانا پکاتا ہے لیکن مجبور لوگوں کے لیے نہیں۔ اب وہ ’حبیبی اینڈ ہوارہ‘ نامی ریستوراں کا ملازم ہے۔
اس ریستوراں کا مئی میں افتتاح ہوا تھا اور یہ ویانا کے مرکز میں واقع ہے۔ اس کے علاوہ اس ریستوراں کے باورچی خانے میں ہبہ النجر بھی کام کرتی ہے اور وہ بھی الجاسم کی طرح شام سے نقل مکانی کر کے یہاں پہنچی ہے۔ تاہم ہبہ کو پہلے سے ہی علم ہے کہ کھانا کیسے پکایا جاتا ہے۔ کھانا پکانا اسے بہت پسند ہے، ’’میرا تعلق دمشق سے ہے اور وہاں پر یہ عام نہیں ہے کہ خواتین کسی ریستوراں کے باورچی خانے میں کام کریں۔ پابندی بھی نہیں ہے لیکن اسے مردوں کا کام سمجھا جاتا ہے‘‘۔
مارٹن رولا ’حبیبی اینڈ ہوارہ‘ کے مالک ہیں۔ ویانا کے قریب ان کا اپنا ایک فارم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ریستوراں کا مقصد ملازمین کو یہ سمجھانا ہے کہ آسٹریا میں کاروبار کس طرح کیا جاتا ہے، ’’ہم ’حبیبی اینڈ ہوارہ‘ کو ایک نمائندہ یا پہچان کی طرح دیکھتے ہیں اور ہم اس طرز پر اور اسی نام سے آسٹریا اور شاید دیگر ممالک میں اور بھی ریسٹورانٹ کھولنا چاہتے ہیں۔‘‘ رولا بتاتے ہیں، ’’گزشتہ برس مہاجرین کا بحران جب اپنے عروج پر تھا تو میں نے اپنا فارم نئے آنے والے مہاجرین کے لیے کھول دیا۔ اس دوران میں نے آسٹریئن صارفین کو بلایا اور ان سے کہا کہ وہ ان لوگوں سے بات چیت کریں اور ان کے بچوں کا خیال کریں۔ ہم نے اسے ایک مسئلے کے بجائے ایک موقع کے طور پر دیکھا۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ کچھ مہاجرین سے بات کر کے انہیں ’حبیبی اینڈ ہوارہ‘ کھولنے کا خیال آیا، ’’پھر میں نے سوچا کے ان کے ساتھ ان کے لیے ایک کمپنی قائم کی جائے۔‘‘ اس ریستوراں میں پندرہ افراد کام کرتے ہیں اور ان میں زیادہ تر شامی مہاجرین ہیں۔ جب کہ اس کا انتظام مقامی افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ اس دوران انتظامیہ ان مہاجرین کو آسٹریا میں کاروبار کرنے کے بارے میں سمجھاتی ہے اور اسی حوالے سے انہیں ملکی قوانین بھی سمجھائے جاتے ہیں۔