1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونیسکو کی نئی سربراہ: ایرینا بوکووا

رپورٹ: مقبُول ملک ، ادارت : عابد حسین23 ستمبر 2009

فرانسیسی دارالحکومت میں اقوام متحدہ کے ادارے UNESCO کی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں ہونے والی حتمی مرحلے کی رائے شماری میں منگل کی رات بلغاریہ کی سابقہ وزیر خارجہ ایرینا بوکووا کو یونیسکو کی نئی سربراہ منتخب کر لیا گیا۔

https://p.dw.com/p/JmlC
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی نئی سربراہتصویر: AP

ابتداء میں اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کے لئے کئی امیدوار میدان میں تھے مگر چوتھے انتخابی مرحلے کے اختتام تک صرف دو امیدوار باقی رہ گئے تھے، مصری وزیر ثقافت فاروق حسنی اور بلغاریہ کی خاتون سفارت کار ایرینا بوکووا۔

منگل کی رات پیرس میں واقع یونیسکو ہیڈکوارٹر میں ہونے والے اس عالمی تنظیم کی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں یونیسکو کے نئے سربراہ کے انتخاب کے لئے جو رائے شماری ہوئی، وہ پانچویں اور آخری مرحلے کی ووٹنگ تھی، جس دوران یونیسکو کے رکن ممالک میں پائے جانے والے کئی طرح کے اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے۔

Faruk Husni / UNESCO
مصر کے وزیر ثقافت فاروق حسنیتصویر: AP

اس رائے دہی میں فاروق حسنی کو 27 اور ایرینا بوکووا کو 31 ووٹ ملے، اور یوں بلغاریہ کی یہ سابقہ وزیر وہ پہلی خاتون بن گئیں، جو اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے کی سربراہی کریں گی۔ بوکووا کے یونیسکو کی ایگزیکٹو کونسل کی طرف سے اکثریتی رائے سے انتخاب کے بعد اُن کی اس عہدے پر تقرری سے قبل یونیسکو کی رکن 193 ریاستوں پر مشتمل جنرل باڈی سے منظوری بھی لازمی ہو گی، مگر یہ توثیق یقینی ہونے کی وجہ سے محض ضابطے کی کارروائی سمجھی جا رہی ہے۔ بوکووا کے انتخاب کی منظوری یونیسکو کی جنرل باڈی کے ایک اجلاس میں اگلے مہینے دی جائے گی۔

اپنے انتخاب کے بعد 57 سالہ ایرینا گیورگیوا بوکووا نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے فاروق حسنی کے ساتھ یونیسکو کی سربراہی کے لئے مقابلے کو کبھی بھی کوئی جنگ نہیں سمجھا تھا۔ اسی لئے وہ تمام اچھی اور قابل عمل تجاویز پر عمل درآمد کی کوشش کریں گی، اور اپنے نئے عہدے پر دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیں گی۔

UNESCO United Nations Educational, Scientific and Cultural Organization Logo
یونیسکو کا نشان

یونیسکو کے نئے سربراہ کے عہدے کے لئے جمہوری مقابلہ اُس بدمزگی کی وجہ سے بڑا متنازعہ بھی ہو گیا تھا جو ایرینا بوکووا کے حریف امیدوار اور 71 سالہ مصری وزیر ثقافت فاروق حسنی کے گزشتہ برس دئے گئے ایک بیان کی وجہ سے پیدا ہو تھا۔ اس بیان میں فاروق حسنی نے قاہرہ میں ملکی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انہیں مصری کتب خانوں میں اسرائیلی کتابیں نظر آئیں تو وہ انہیں آگ لگا دیں گے۔

پھر جب وہ یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کے لئے باقاعدہ امیدوار بنے، اور انہیں تقریباﹰ پوری عرب دنیا کی حمایت بھی حاصل ہو گئی، تو یہ بھی کہا جانے لگا تھا کہ یونیسکو کا اگلا سربراہ پہلی مرتبہ ایک عرب رہنما ہوگا۔

مصری وزیر ثقافت نے یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کے لئے اپنی مہم میں خود کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر پیش کیا، جو مشرق اور مغرب کے درمیان پل کا کام کرسکتی تھی۔ حسنی کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق مشرق سے ہے۔ وہ مشرق اور مغرب کے درمیان غیر معمولی رابطوں کی تلاش میں ہیں، اور دوطرفہ مصالحت کے خواہش مند ہیں۔

لیکن فاروق حسنی کے امیدوار بننے پر بہت سی یہودی تنظیموں نے ان پر شدید تنقید کرنا شروع کر دی، اور ذرائع ابلاغ میں یہ الزام بھی لگائے جانے لگے کہ فاروق حسنی خود مصر میں میڈیا پر پابندیوں کے حوالے سے دانستہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ پانچویں مرحلے کی نتیجہ خیز رائے شماری کے بعد یونیسکو کے اس اجلاس میں شریک میکسیکو کے ایک مندوب نے کہا کہ یہ انتخابی مقابلہ ایک تنازعہ بن گیا تھا اور کئی مندوبین کو تشویش تھی کہ یوں یونیسکو کی ساکھ متاثر ہو گی۔

اس کے برعکس فاروق حسنی کے حامی مندوبین نے ایرینا بوکووا کی کامیابی کے بعد کہا کہ یونیسکو جیسا ادارہ مسلم دنیا کو ایک مثبت اور تعمیری اشارہ دینے میں ناکام رہا ہے، اور اس حوالے سے فاروق حسنی کو منتخب نہ کر کے ایک بہترین موقع ضائع کر دیا گیا ہے۔