1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوم مئی، پاکستان میں مزدور تاحال استحصال کا شکار

1 مئی 2018

ہر سال کی طرح اس برس بھی پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے۔ یہ دن ایسے موقع پر منایا جا رہا ہے جب پاکستان میں مزدوروں کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے کی اب بھی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/2wwxm
Pakistan Textilinsdustrie
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

موسم کی شدتوں میں اوقات کار اور اجرت سے بڑھ کر محنت مشقت کا بوجھ اٹھاتے مزدوروں کے لیے اس دن کو منانے کا مقصد ہی یہ رہا ہے کہ اس محنت کش طبقے کے استحصال کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی جائے بلکہ عملی اقدامات بھی کیے جائیں۔ تاہم پاکستان میں ہر برس یوم مئی زور و شور سے منانے کے باوجود ملک کا یہ طبقہ اب بھی کئی بنیادی حقوق سے محروم ہے۔

ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصر منصور کہتے ہیں کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود پاکستان میں مزدوروں کے حالات اور کام کاج کی صورتحال میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’حکومت اس پر بات تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتی۔ یہاں کتنے ہی حادثات ہو چکے ہیں مثلاﹰ علی انٹرپرائز کا حادثہ ہوا، شپ بریکنگ کا اتنا بڑا حادثہ ہوا جس میں کئی لوگ جان سے گئے، کانوں میں مسلسل حادثات ہو رہے ہیں۔ پھر گارمنٹس اور ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں روز ہی کوئی نا کوئی  چھوٹا بڑاحادثہ پیش آ رہا ہے لیکن ابھی تک کوئی ايسی بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی جس پر کہا جا سکے کہ پاکستان کے محنت کشوں کے حالات کو بہتر کرنے کے لیے  کبھی سوچا بھی گیا ہے۔‘‘
ناصر منصور  کہتے ہیں کہ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ مانٹرنگ کا کوئی سسٹم موجود نہیں، ’’ریاست اور جو بھی نئی حکومت آتی ہے، اس کی ترجیحات میں مزدوروں کے حقوق شامل نہیں۔ زدوسری بات یہ کہ ہماری ٹریڈ یونینز بہت کمزور ہیں۔ پاکستان میں جمہوری ڈھانچہ کمزور ہونے کی وجہ سے جب بھی کوئی فوجی حکومت آئی اس نے ٹریڈ یونین پر حملہ کیا ہے۔‘‘

پاکستان میں 62 ملین کے قریب مزدور ہیں جن میں سے 70 فیصد ٹیکسٹائل، کاٹن اور گارمنٹ کے شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ ناصر منصور  کے مطابق ان میں سے ایک فیصد ورکرز بھی ٹریڈ یونین میں نہیں ہیں۔ ’’اب اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی معیشت کی بنیاد ٹیکسٹائل اور گارمنٹس سيکٹرز ہيں۔ یہاں تک کہ پاکستان کی برآمدات ميں 70 فیصد حصہ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کا ہے۔ غیر ملکی زر مبادلہ بھی اسی شعبے کی مد میں آتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ مزدوروں کے حوالے سے اسی شعبے کی حالت ابتر ہے۔ یہاں بڑے بڑے ملکی اور غیر ملکی برانڈز ہیں لیکن نوآبادیاتی کے وقت جو یہاں مزدوروں کو حقوق حاصل تھے، وہ تک پلانٹ کی یا کارخانوں کی سطح پر حاصل نہیں رہے۔‘‘

 دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی لیبر قوانین موجود ہیں تاہم ان پر عمل نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں مزدوروں کی بڑی تعداد استحصال،جبری مشقت اور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ اس حوالے سے ناصر منصور بتاتے ہیں، ’’ 95 فیصد ملازمین جب نوکری پر آتے ہیں، تو ان کو اپائنٹمنٹ لیٹر تک نہیں دیا جاتا۔ یعنی ان کے پاس کوئی ثبوت ہی نہیں ہوتا کہ وہ جن کے لیے کام کر رہے ہیں، وہ اس جگہ پر ملازم ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب ان کو نکالا جاتا ہے اور وہ کسی بھی لیبر ڈیپارٹمنٹ یا لیبر کورٹ میں جا کر یہ دعویٰ دائر کرنا چاہیں کہ ان کو غیر قانونی طور پر برخاست کیا گیا ہے تو وہ یہ ثابت ہی نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ 97 فیصد فیکٹریاں ایسی ہیں جہاں مزدوروں کو کم سے کم مقرر کی گئی اجرت تک نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں غیر ہنرمند مزدور کے لیے کم سے کم اجرت 15 ہزار مقرر ہے جو کہ نہیں دی جاتی۔ جبکہ ہنر مند افراد کے لیے اس سے زیادہ تنخواہ مقرر کی گئی ہے لیکن ان کو غیر ہنرمند مزدور وں کے لیے مقرر کردہ اجرت کے برابر تنخواہ دی جا رہی ہے۔اس کے علاوہ کارخانوں میں نو، دس بلکہ 12 سے 15 گھنٹے بھی کام لیا جاتا ہے جبکہ مقرر کردہ اوقات کار 8 گھنٹے ہیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ وار چھٹیوں کا بھی نظام نہیں اور مزدوروں کو اتوار کے روز بھی کام پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ‘‘

اس ساری صورتحال کے باوجود ناصر منصور کہتے ہیں کہ مزدور طبقے کے حالات میں بہتری کے لیے کوششيں کی جا رہی ہیں اور ان میں تھوڑی بہت کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ ان میں نئے قوانین شامل ہیں جبکہ کچھ معاملات پر ابھی کام کیا جا رہا ہے۔ گو کہ اس وقت محنت کش طبقے کی صورتحال مایوس کن نظر آتی ہے تاہم اس میں بہتری کی امید ابھی باقی ہے۔

بلوچستان میں کوئلے کی کانیں اور جان پر کھیلتے کان کن