1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین ۔ بھارت سمٹ: امیدیں اور امکانات

جاوید اختر، نئی دہلی
15 جولائی 2020

بھارت اور یورپی یونین کے رہنما آج 15جولائی کو ہونے والی بھارت۔ای یو سمٹ کے دوران سیاسی، اقتصادی، اسٹریٹیجک، تجارت اور سرمایہ کاری اور دیگر اقتصادی امور پر باہمی تعاون کو فروغ دینے کا طریقہ کار تلاش کریں گے۔

https://p.dw.com/p/3fLgd
Kombo-Bild Indien EU Flagge

توقع ہے کہ دونو ں فریق قانون پر مبنی کثیر فریقی عالمی نظام کی حمایت کی پرزور تائید کرنے کے علاوہ تعطل کا شکار باہمی تجارتی مذاکرات کو بحا ل کرنے کے حوالے سے بھی بات چیت کریں گے۔

اس ورچوول میٹنگ میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل اوریورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا لیون ڈیئر لیئن بھی حصہ لیں گی۔

یہ چوٹی ملاقات مارچ 2020 میں ہونی تھی جس کے لیے وزیر اعظم مودی کو یورپ کا دورہ کرنا تھا لیکن کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کی وجہ سے وہ دورہ نہیں کرسکے اور میٹنگ ملتوی ہوگئی۔ آج کی چوٹی میٹنگ سے ٹھیک پہلے منگل کو بھارت اوریورپی یونین کے درمیان سول نیوکلیائی تعاون معاہدہ پر دستخط ہونے کا مثبت ماحول بن گیا ہے۔ میڈیا کی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ یہ معاہدہ نیوکلیائی توانائی کے استعمال کے نئے طریقوں پر بھارت اور یورپی یونین کے ملکوں میں ہونے والے ریسرچ میں تعاون پر مرکوز ہوگا۔

کووڈ 19کی وجہ سے معیشت پر پڑنے والے اثرات کے مدنظر بھارت یورپی یونین سے اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد کی امید کررہا ہے۔ دونوں فریق پچھلے کئی برسوں سے آزاد تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے) کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اب تک کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ چوٹی میٹنگ میں سب کی نگاہیں اس بات پر بھی رہیں گی کہ اس محاذ پر بھی کچھ پیش رفت ہوتی ہے یا نہیں۔

اس حوالے سے جندل اسکول آف انٹرنیشنل افیئرز کے پروفیسر اورڈین شری رام چولیا نے ڈ ی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایف ٹی اے کئی برسوں سے سرد بستے میں پڑا ہوا ہے اور اب جبکہ پوری دنیا میں اقتصادی مندی جیسے حالات ہیں، انہیں نہیں لگتا کہ اس موضوع پر کچھ خاص پیش رفت ہوسکے گی۔ پروفیسر چولیا کا تاہم یہ بھی کہنا تھا کہ ان حالات کے باوجود بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اندازوں کے مطابق آنے والے وقت میں بھارت میں ترقی کی شرح مثبت رہے گی اور اگر یورپی یونین اس پر توجہ دے تو وہ بھارت میں سرمایہ کاری کرنا چاہے گا۔

بھارت کے سابق خارجہ سکریٹری ششانک بھی یورپی یونین کے ساتھ ایف ٹی اے کے امکانات کے تئیں مایوسی کو تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں اس وقت یورپی یونین کے بجائے امریکا کے ساتھ ایف ٹی اے پر دستخط کرنے میں زیادہ دلچسپی ہے۔ ششانک کا کہنا تھا کہ وہ چوٹی میٹنگ سے کسی ایسے اہم اعلان کی امید نہیں کررہے ہیں جو میڈیا کی شہ سرخی بن سکے۔

Indien Treffen Premierminister Narendra Modi mit EU Delegation in Neu-Delhi
وزیر اعظم مودی نئی دہلی میں یورپی پارلیمان کے اراکین کے ساتھتصویر: Reuters/Handout/India's Press Information Bureau

چین کے ساتھ بھارت کے بگڑتے تعلقات کے درمیان اس سوال کے سلسلے میں بھی تجسس ہے کہ کون سی بڑی طاقتیں بھارت کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہیں اور اسٹریٹیجک تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہیں۔

بھارت کے سابق خارجہ سکریٹری ششانک کہتے ہیں کہ بھارت کو یورپی پارلیمنٹ سے حمایت ضرور ملی تھی لیکن شاید بھارت کو چین کے خلاف ملنے والی حمایت، ہمدردی تک ہی محدود رہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یورپی ملکوں کے چین کے ساتھ کئی طرح کے مفادات ہیں اور کئی یورپی کمپنیوں نے چین میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے جس کی وجہ سے یورپی یونین چین کو اس طرح چیلنج نہیں کرسکتا جیسا کہ امریکا کررہا ہے۔

پروفیسر شری رام چولیا کا تاہم خیال ہے کہ یورپی یونین کے ممالک چین کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر غور کررہے ہیں اور ایسے میں بھارت چاہے گا کہ وہ بھارت کی طرف ایک پارٹنر کی نظر سے دیکھیں۔ پروفیسر چولیا کا کہنا تھا”یوں تو اس بات سے بہت کم فرق پڑتا ہے کہ چین جنوبی چین سمندری علاقے میں ملکوں کو دھمکا رہا ہے لیکن سنکیانگ، ہانگ کانگ اور تبت جیسی جگہوں پر ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے تئیں یورپی یونین کے ملک چین کو منفی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بھارت اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتا ہے۔"

خیال رہے کہ یورپی یونین اور بھارت کے درمیان چوٹی میٹنگ کا سلسلہ سن 2000 میں شروع ہوا تھا۔ دونوں فریقین نے ہر سال ملاقات کرنے اور باہمی تعاون کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا تاہم گزشتہ کئی برسوں سے اس پر عمل نہیں ہوسکا۔ پچھلی چوٹی میٹنگ سن 2017 میں ہوئی تھی۔

یورپی یونین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ 2018-19میں دونوں کے درمیان 115.6 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی تھی۔ اس

 کے علاوہ بھارت میں براہ راست سرمایہ کاری کے لحاظ سے بھی یورپی یونین سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بھارت میں یورپی یونین کی سرمایہ کاری 24 فیصد کے قریب ہے۔

یورپی ارکان پارلیمان کی کشمیر آمد، تشہیری مہم تھی؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید