1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں کسانوں کو دی جانے والی مراعات میں کمی

ندیم گل4 دسمبر 2008

یورپی یونین، 27 امیر ملکوں کا ایک ایسا بلاک، جہاں محض تین فیصد آبادی پر سالانہ بجٹ کا 40 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ یہ خوش قسمت لوگ یورپ میں بسنے والے ایک کروڑ 30 لاکھ کسان ہیں۔

https://p.dw.com/p/G9BX
یورپ میں کسانوں کو اپنی حکومتوں سے بھاری مراعات حاصل ہیں تاکہ وہ اپنی پیداوار کو سستے داموں بیچ سکیں۔تصویر: AP

یورپ میں کسانوں کو اپنی حکومتوں سے بھاری مراعات حاصل ہیں تاکہ وہ اپنی پیداوار کو سستے داموں بیچ سکیں۔ اس کی وجہ سے یورپی شہریوں پراضافی ٹیکسوں کا بوجھ تو ہے ہی، اس کے ساتھ ہی تیسری دُنیا کے کاشت کاروں پر بھی قدرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ عالمی زرعی منڈیوں کا توازن بگڑتا ہے۔

یورپ کی طرح امریکہ بھی عالمگیریت اور آزاد تجارت پر زور دیتا رہتا ہے۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ واشنگٹن کی عالمی مالیاتی سربراہی کانفرنس میں بتایا گیا کہ 2005 میں امریکہ میں کپاس کاشت کرنے والے کسانوں کو چار ارب 20 کروڑ ڈالر کی مراعات دی گئیں تاکہ وہ عالمی منڈی میں سستی کپاس فروخت کرسکیں۔ بھارتی زرعی ماہر اومی ڈائنیل کہتے ہیں: "یہ بہت ہی بڑی سبسڈی ہے، ان کی زرعی زمینیں کم ہیں لیکن سبسڈی زیادہ ہوتی ہے۔"

ادھر یورپ اور امریکہ نے اپنی زرعی منڈیوں کو تحفظ دینے کے لیے تیسری دُنیا کی زرعی پیداوار پر بھاری درآمدی ٹیکس عائد کر رکھے ہیں۔

کسانوں کو وسیع پیمانے پر مالی امداد دینے پر یورپی حکومتوں کو کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ بالخصوص برازیل اور بھارت نے اس یورپی پالیسی کو ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیا۔ ان ممالک کا مؤقف ہے کہ ان کے کاشت کار عالمی منڈیوں میں یورپ کی زرعی پیداوار کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس صورت حال پر انسانی ‌حقوق کے بھارتی ماہر گوتم نولاکھا کا کہنا ہے: "یہاں زیادہ تر غریب کسان رہتے ہیں۔ جنوبی ایشیا، افریقی ممالک، یہاں کاشتکاری بہت مشکل ہے جبکہ کسانوں کو اتنا فائدہ نہیں ہوتا۔"

Deutschland-Portal Mecklenburg-Vorpommern Bauer Constien an Weide und Karpfenteich
یورپ اور امریکہ نے اپنی زرعی منڈیوں کو تحفظ دینے کے لیے تیسری دُنیا کی زرعی پیداوار پر بھاری درآمدی ٹیکس عائد کر رکھے ہیں۔تصویر: Franziska Drewes

سچ تو یہ ہے کہ عالمی منڈیاں تو دُور، غریب ملکوں کے بیشتر کاشتکار تو اپنے ہی کھیتوں میں بے بس ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کے کاشت کار سے کہیں زیادہ محنت کرنے والے یہ کسان، جو بنجر زمین کو بھی سونا اگلنے پر مجبور کردیتے ہیں، اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں پاتے۔ انہی حالات کے پیش نظر 1997 سے 2008 کے دوران بھارت کے مختلف علاقوں میں ایک لاکھ 50 ہزار کسانوں نے خود کشی کر لی۔ گوتم نولاکھا نے کہا: "ہندوستان میں بینکوں، خاص طور پر سرکاری بینکوں نے زرعی قرضوں می کٹوتی کردی، یہ بہت بڑی کٹوتی تھی۔ اس سے لوگوں نے ذاتی حیثیت سے قرضہ دینے والوں سے پیسہ لے کر کھیتی باڑی کرنا شروع کی، اس پر انہیں منافع بھی زیادہ دینا پڑتا ہے اور جب حالات زیادہ خراب ہوتے ہیں تو پیسہ دینے والا کسانوں پر دباؤ بڑھاتا ہے۔ اس طرح قرض کے بوجھ تلے دبے ان کسانوں میں مایوسی بڑھ جاتی ہے۔"

ا‍ُدھر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے فورمز پر بھی یورپی یونین کو اس کی زرعی پالیسی میں تبدیلی پر مجبور کیا گیا جس کے بعد گزشتہ ماہ یورپی یونین نے اپنے زرعی پروگرام میں ترمیم کا اعلان کیا جس کے تحت یورپی یونین کے 53 ارب یورو مالیت کے زرعی امدادی پروگرام میں تبدیلی کی جائے گی۔ یہ فیصلہ 19 نومبر کو بیلجیئم کے شہر برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے زراعت کے اجلاس میں کیا گیا۔ اس سے متعلق پالیسی پر نظر ثانی کا مرحلہ 2009 میں شروع ہوگا جو 2013 تک جاری رہے گا۔

یورپی یونین کی اس اسکیم کے تحت پانچ ہزار یورو کی بنیادی سطح کی مراعات حاصل کرنے والے کسانوں کو حکومت کی جانب سے حاصل ہونے والی مالی اعانت کا پانچ فیصد 2012 تک دیہی علاقوں کے منصوبوں پر خرچ کرنا ہوگا۔

نئی اسکیم کے تحت مالی امداد آمدنی کے تین گروپوں کے بجائے صرف ایک، یعنی تین لاکھ یورو تک کی آمدنی والے کسانوں کو دی جائے گی جبکہ 2012 تک چار فیصد مالی معاونت دیہی منصوبوں کے لیے مختص ہوگی۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بڑے کاشت کاروں کو حاصل والی حکومتی امداد میں زیادہ کٹوتی ہوگی۔

حالانکہ اس اسکیم میں آخری لمحات پر کچھ تبدیلیاں کی گئیں تاہم پھر بھی اسے 2003 کے بعد یورپی یونین کی سب سے بڑی زرعی اصلاحات کہا جا رہا ہے۔

اُدھر یورپی یونین کے کمشنر برائے زراعت Mariann Fischer Boel مزید اصلاحات پر زور دے رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے:" ہم نے پرانے رکن ملکوں کے لیے مواقع کو بہتر بنایا ہے تاکہ پوری یورپی زراعت نئے تقاضوں کا ساتھ دے سکے۔ اگر ہم سمجھوتہ نہ کرتے تو یورپی زراعت کو نقصان اٹھانا پڑتا۔"

یورپی ملکوں کے کاشت اپنی حکومتوں کے اس فیصلے پر برہم دکھائی دیتے ہیں جبکہ حکام بھی کاشت کاروں کی معاونت جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی پارلیمنٹ نے ان تجاویزپر بھی اتفاق کیا جن کا مقصد یورپی کسانوں کو مراعات کی کمی سے ہونے والے نقصان سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔

ادھر فرانس کے شہر Strasbourg میں ایک اجلاس کے دوران یورپی یونین کے حکام نے کہا کہ خوراک کی پیداوار سے متعلق بعض مراعات قائم رہنی چاہئیں جس میں دُودھ اور مویشیوں کی پیداوار کے لیے خصوصی امداد بھی شامل ہے۔

نئی زرعی پالیسی پر یورپ کے تمام ممالک راضی نہیں۔ تاہم یورپی حکام نے اس معاہدے کی حمایت نہ کرنے والے ممالک کے نام نہیں بتائے۔ فرانس کے فارم منسٹر Michel Barnier نے کہا: "فرانسیسی وزیربلکہ یورپی کونسل کے صدر کی حیثیت سے بھی میں کوٹے میں تبدیلی کو دوسرے اقدامات اور احتیاطی تدابیر کے بغیر منظور نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اگر آپ ان سمجھوتوں کو دیکھیں تو آپ کو یہ اقدامات اور احتیاطی تدابیر نظر آئیں گی۔ "

یورپی کسانوں کی مالی امداد میں کمی سے ترقی پذیر ملکوں کے کاشت کاروں کو کیا فائدہ ہوگا، اس سے متعلق بھارت میں مقیم زرعی ماہر اومی ڈائنیل نے کہا: "مجھے تو نہیں لگتا، یہاں جو مندی ہے اور فوڈ کرائسز کا جو مسئلہ ہے، اس میں ہماری جتنی بھی پیداوار ہے ہم تو اسے برآمد نہیں کرنا چاہیں گے۔ ویسے بھی یورپی یونین اپنے کسانوں کی سبسڈی میں بہت زیادہ کمی نہیں کرے گی۔

اُدھر یورپ کے کسان بھی مراعات میں کٹوتی پر سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ ماہ یورپی یونین کے صدر دفاتر کے باہر ہزاروں کسانوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا جن میں فرانس، پولینڈ، یونان، اور اسپین کے تمباکو کے کاشت کار بھی شامل تھے۔ دوسری جانب یونان میں تمباکو کے کاشت کاروں نے مراعات میں کمی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے دوران دو شاہرائیں بند کردیں۔ ظاہر ہے مراعاتوں میں کسی بھی طرح کی کٹوتی انہیں منظور نہیں۔