1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں مہاجرین کا بہاؤ ویسا نہ سہی مگر مسائل کا بہاؤ وہی

عاطف توقیر28 اگست 2016

گزشتہ برس بحیرہء روم کے راستے ایک ملین سے زائد مہاجرین نے یورپ کا رخ کیا، جس کے بعد یورپی یونین نے متعدد طرح کے اقدامات اٹھائے اور یہ بہاؤ روکا۔ مگر اب بھی درجنوں مسائل ہیں، جو حل ہونا باقی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JrGk
Griechenland Leben im Flüchtlingslager in Vasilika
تصویر: picture alliance/NurPhoto/N. Economou

گزشتہ برس مہاجرین کے بحران کے عروج کے دنوں میں روزانہ ہزاروں افراد یورپی یونین میں داخل ہو رہے تھے۔ یہ افراد ترکی سے بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یونانی جزائر تک پہنچتے، پھر یونانی کے مرکزی حصے سے شمال کی جانب بلقان ریاستوں کا سفر اختیار کرتے اور بلآخر آسٹریا کے راستے جرمنی یا شمالی یورپی ممالک پہنچ جاتے۔ مگر بعد میں یورپی یونین نے اپنی سرحدوں پر نگرانی سخت کر دی، بلقان ممالک نے اپنی سرحدیں مہاجرین کے لیے بند کر دیں، ترکی کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا گیا، جس کے تحت انقرہ حکومت کو پابند بنایا گیا کہ وہ اپنے ہاں سے مہاجرین کو یونان جانے سے روکے۔ اس کے علاوہ یورپ پہنچ جانے والے ایسے مہاجرین، جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو گئیں، ان کو جلد از جلد ان کے آبائی ممالک پہنچانے کے لیے قانونی سازی بھی کی گئی اور عملی اقدامات بھی۔

مگر اس کے باوجود اب بھی ایسے درجنوں مسائل ہیں، جو حل طلب ہیں اور انہیں باریک بینی سے دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔

یورپی یونین میں اب بھی اس معاملے پر بحث جاری ہے کہ جنگ زدہ ممالک سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو کس طرح رکن ریاستوں میں تقسیم کیا جائے۔

رواں برس کے پہلے چھ ماہ میں بحیرہء روم عبور کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش میں تین ہزار سے زائد مہاجرین جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ شمالی افریقہ سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں گزشتہ برس کی نسبت 37 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

Griechenland Leben im Flüchtlingslager in Vasilika
اب بھی ہزاروں مہاجرین یونان اور اٹلی میں پھنسے ہوئے ہیںتصویر: picture alliance/NurPhoto/N. Economou

ترکی میں اس وقت مجموعی طور پر تین ملین مہاجرین موجود ہیں، جن میں دو اعشاریہ سات فیصد شامی باشندے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر شامی مہاجرین کو ترک حکومت کی جانب سے کوئی مالی اعانت دستیاب نہیں۔ یورپی یونین نے ترکی کے ساتھ معاہدے میں ان مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے چھ ارب یورو تک سرمایہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا تھا کہ یورپ پہنچنے والے غیرقانونی تارکین وطن کو ترکی قبول کرے گا، جب کہ قبول کیے گئے ہر مہاجر کے بدلے ترکی میں مقیم کسی شامی مہاجر کو یورپی یونین میں بسایا جائے گا، تاہم اب تک اس اسکیم کے تحت صرف ساڑھے گیارہ سو مہاجرین کو یورپی یونین میں بسایا جا سکا ہے، جس میں زیادہ تر افراد کو جرمنی اور سویڈن نے اپنے ہاں جگہ دی ہے۔

دوسری جانب مارچ میں ترکی کے ساتھ یورپی یونین کی ڈیل طے پانے کے بعد یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں ڈرامائی کمی دیکھی گئی ہے، تاہم اب بھی ماہانہ بنیادوں پر ہزاروں مہاجرین یونان پہنچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ جبکہ ترکی میں گزشتہ ماہ ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ انقرہ حکومت یورپی یونین کے ساتھ یہ ڈیل ختم بھی کر سکتی ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوی ایٹڈ پریس کے مطابق پہلے ہی سے مالیاتی بحران کے شکار ملک یونان میں اب بھی قریب ساٹھ ہزار مہاجرین پھنسے ہوئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر نے اب وہاں سیاسی پناہ کی درخواستیں بھی جمع کرا دی ہیں۔ تاہم یورپی یونین کی جانب سے وہاں موجود مہاجرین کو دیگر رکن ریاستوں میں بسانے سے متعلق پروگرام اب تک کچھوے کی رفتار سے چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین کی مشرقی رکن ریاستوں کی طرف سے بھی اٹلی اور یونان میں موجود مہاجرین کو دیگر ریاستوں میں بسانے کی یورپی اسکیم کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ اس وقت اٹلی میں بھی رواں برس کے پہلے چھ ماہ میں ستر ہزار مہاجرین پہنچنے ہیں۔ اطالوی حکومت کی جانب سے ملک کے شمال کی جانب جانے والے راستوں پر کڑی چیکنگ کے اقدامات کی وجہ سے یہ مہاجرین اٹلی ہی میں پھنستے جا رہے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ مہاجرین کے بحران نے یورپی یونین کی وحدت کو بھی خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ اس موضوع پر یونین کی رکن ریاستیں کوئی مشترکہ حکمتِ علمی وضع کرنے کی بجائے اپنے اپنے طور پر اقدامات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔