1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ مہاجرت کے نئے بحران کے آغاز کے دھانے پر

3 مارچ 2020

آسٹریا کے چانسلر سباستیان کُرس کا کہنا ہے کہ ترکی اپنی سرحدوں کو مہاجرین کے لیے کھول کر یورپی یونین کو بلیک میل کر رہا ہے اور وہ اس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3YnnI
Migranten an der griechisch-türkischen Grenze
تصویر: picture-alliance/dpa/Xinhua/D. Tosidis

سیباستیان کرُس نے رپورٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''یہ ترکی کا یورپی یونین اور یونان کے خلاف حملہ ہے۔ انسانوں کو یورپ پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ... یورپی یونین کو بلیک میل نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

یورپی یونین انقرہ حکومت کی طرف سے ترکی کی سرحدوں کو مہاجرین اور پناہ گزینوں کے لیے کھول دینے کے اقدام کو مہاجروں کے لیے ایک گرین سگنل قرار دے رہی ہے جس کا مقصد ان لاکھوں پناہ گزینوں کو یورپی یونین کی سرحدوں کی طرف بڑھنے کی ترغیب دینا ہے۔ ان پناہ گزینوں میں ایک بڑی تعداد شامی باشندوں  کی ہے جو یورپی یونین میں شامل ممالک کی طرف روانہ ہونے پر مجبور ہیں۔ یورپی یونین کا موقف ہے کہ اس طرح ترکی اُس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے جس کے تحت ترکی نے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے یورپ میں داخلے کو روکنے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور یورپی یونین نے اُسے اس کے بدلے ایک خطیر رقم دینے کا وعدہ کیا تھا۔

آسٹریا کے چانسلر سباستیان کُرس نے ترک صدر رجب طیب اردوآن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ''جھوٹے وعدوں‘‘ کے ذریعے مہاجرین کو راغب کر کے یونانی سرحد پر منتقل کرتے ہیں جہاں سے وہ یورپ میں داخلے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس طرح ترک صدر انسانوں کو یورپی یونین پر دباؤ ڈالنے کے لیے ''ہتھیار‘‘ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

Polizeieinheiten an der griechisch-türkischen Grenze
ترکی سے ملحقہ یونان کی سرحد پر تعینات پولیس۔تصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis

کُرس کے بقول یہ یورپی یونین کے لیے اپنی بیرونی سرحدوں کے تحفظ کی صلاحیتوں کا ''امتحان‘‘ ہے۔ آسٹریا کے چانسلر نے کہا کہ آسٹریا یونان اور کسی دوسرے ملک کی مدد کے لیے تیار ہے جس کو ''اس قسم کے حملوں‘‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا ،''میں آپ کو ایک بات کی ضمانت دے سکتا ہوں کہ اگر یورپی یونین کی بیرونی سرحدیں کام نہیں کر سکتیں تو، (اندرونی) سرحدوں کے بغیر یورپ تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔‘‘

مہاجرین کا ایک نیا بحران

پیر دو مارچ کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ترکی کے اس اقدام کو ''ناقابل قبول‘‘ قرار دیا اور یورپی یونین کے مہاجرت کے امور کے کمشنر ماگاریٹس سکیناس نے کہا کہ کوئی بھی ''یورپی یونین کو بلیک میل یا دھمکا نہیں سکتا۔‘‘  واضح رہے کہ رجب طیب ایردوآن نے شام شہر ادلب میں حکومتی افواج اور ترکی کی حمایت یافتہ باغیوں کے مابین شدید جھڑپوں کے دوران یہ اقدام کیا، اور جس کے بعد انقرہ اور برسلز کے مابین پناہ گزینوں کے تنازعے میں مزید شدت پیدا ہوئی۔

Migranten an der griechisch-türkischen Grenze
سخت سرحدی پہروں کے باوجود ہزاروں مہاجرین ترکی سے یونان کی سرحدوں میں داخل ہونے کی کوشش میں۔تصویر: picture-alliance/dpa/XinHua

 ترکی کو شمالی شام سے فرار ہونے والے قریب ایک ملین مہاجرین کے نئے سیلابی ریلے کا سامنا ہے۔ اسی لیے انقرہ حکومت نے یونان کے ساتھ اپنی سرحدیں کھول دینے کا فیصلہ کیا۔ مہاجرین میں شام کے علاوہ دیگر علاقوں سے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رُخ کرنے والے افراد بھی شامل ہیں۔

یونان نے اپنی زمینی سرحد بند کرتے ہوئے، فوج اور پولیس کی نفری میں واضح اضافہ کر دیا ہے۔ یونانی حکومت نے خاص طور سے ترکی کے ساحل سے یونان کے مشرقی جزائر تک مختصر لیکن خطرناک بحری راستے پر مہاجر کشتیوں کو روکنے کی کوشش کے لیے اضافی فورسز تعینات کی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا ہونے کا انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوری کارروائی کے ذریعے ایک نئے انسانی بحران کو  روکا جائے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کا کہنا ہے کہ ترکی اور یونان کی سرحدوں پر پائی جانے والی صورتحال محض ایک جھلک ہو سکتی ہے یورپ کے لیے ہجرت کے ایک اور بحران کا آغاز کی۔

ک م / ا ب ا (اے ایف پی، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں