1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ تحفظ ماحول کے لئے کیا کر رہا ہے؟

14 مارچ 2007

یورپی یونین کے رکن ملکوں کے درمیان قابل تجدید توانائی پر پہلے سے زیادہ انحصار اور سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کا سمجھوتہ طے پایا ہے۔ برطانوی حکومت کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مسودہ قانون پیش کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/DYHG

یورپی یونین کی پچھلے ہفتے ہونے والی سربراہ کانفرنس میں ایک تاریخی اہمیت کا سمجھوتہ طے پایا جس میں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لئے سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی اور سن 2020 تک توانائی کا 20 فیصد قابل تجدید یا محفوظ زرائع سے حاصل کرنے عہد کیا گیا ہے۔ برطانیہ وہ پہلا ملک ہے جس نے موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لئے ایک قانونی لاحہ عمل تیار کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمان سے منظوری کے بعد اگر وزیر اعظم ٹونی بلیر کی یا آئندہ کی کوئی بھی حکومت اس قانون کے تحت طے کردہ اہداف پورے کرنے میں ناکام رہی تو اس کے خلاف عدالتی کارروائی کی جائے گی۔

اس بل میں سن 2020 تک کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں 26 سے 32 فیصد کمی اور سن 2050 تک اس کمی کو 60 فیصد تک کردینے کی قانونی پابندی عائد کئے جانے کی بات کی گئی ہے۔ توقع ہے کہ یہ بل اگلے سال کے اوائل تک قانون کی حیثیت حاصل کر لے گا۔ ایک نئی غیر جانبدار مشاورتی کمیٹی قائم کی جائے گی جو حکومتی پیش رفت کی سالانہ رپورٹ پارلیمان کو پیش کرے گی۔ اور وزراءبراہِ راست پارلیمان کو جواب دہ ہوں گے۔

وزیر اعظم ٹونی بلیر کی حکومت کا کہنا ہے کہ اگرچہ تمام برطانوی شہریوں کو کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں کمی کے لئے اپنا انفرادی کردار ادا کرنا ہوگا لیکن اس سے معیار زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وزراءکا مؤ‎قف ہے کہ توانائی کے طریقہ استعمال میں تبدیلیاں محفوظ ٹیکنولوجی جیسے کہ ہوا، پانی، سورج وغیرہ سے بجلی حاصل کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے زریعے ممکن بنائی جائیں گی۔

ماحولیاتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے عمل کو روکنے کے لئے یہ حکومتی اقدامات کافی نہیں ہیں، جبکہ برطانوی اپوزیشن کے بعض ارکان نے تو یہ بھی کہا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں ایک یا دو ڈگری کا اضافہ برطانیہ کے لئے فائدے مند ہو گا، وہ اس طرح کہ وہاں موسم سرما میں شدید سردی کے باعث جو لوگ برطانیہ جانے سے گھبراتے ہیں وہ پھر سیاحت کے لئے وہیں کا رخ کریں گے۔ لیکن برطانوی ایوان بالا یعنی ہاؤ‎س آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیر کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی خود غرض بات ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں ایک یا دو ڈگری کا اضافہ برطانیہ جیسے ملکوں کے لئے تو شائد بہتر ہو لیکن سطح سمندر میں اضافہ کی وجہ سے بنگلہ دیش جیسے ممالک مکمل طور پر پانی میں ڈوب جائیں گے۔