1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیمن

یمنی مصور نے جنگ سے تباہ حال دیواروں کو اپنا کینوس بنا لیا

4 جون 2023

علاء روبیل بمباری سے متاثرہ اپنے گھر کی دیواروں کو کینوس کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ یمنی مصور اپنی تخلیقات میں جنگی متاثرین کی مایوسی، ان کی زندگیوں اور اموات کی عکاسی کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4S4lm
Jemen Graffiti Einfluss Iran Saudi Arabien Konflikt
تصویر: picture-alliance/epa/Y. Arhab

یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان جنگ چھڑنے کے کچھ عرصے بعد ہی بندرگاہی شہر عدن میں گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی تھی۔ عدن علاء روبیل کا آبائی شہر بھی ہے۔ 

اُس وقت ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ کیا تھا کہ عدن میں 2015ء میں کئی ماہ تک گنجان آباد علاقوں میں توپ خانوں سے گولے برسائے گئے اور راکٹ فائر کیے گئے، جس کے نتیجے میں درجنوں شہری مارے گئے۔

یمن میں دیرپا امن کے لیے اقوام متحدہ کی ثالثی ضروری، جرمنی

روبیل جو کہ اب 30 سال کے ہیں،  اپنی نوعمری سے ہی دیواروں پر نقش و نگاری کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے فن کو زبان، تشدد کا ایک طویل سفر دیکھنے کے بعد ملی ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''میں نے دیکھا کہ حکومت کو لا پتا ہونے والوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔ میں اپنے فن کے ذریعے ان لوگوں کا پیغام دنیا بھر تک پہنچانا چاہتا ہوں، جو اس لڑائی کی وجہ سے اپنا گھر اور خاندان کھو بیٹھے ہیں۔‘‘

Bildergalerie Jahresrückblick 2018
یمن کی کئی سالہ جنگ میں اب تک ہزاہا بچے مارے جا چکے ہیںتصویر: Reuters/M. al-Sayaghi

آج عدن کی سڑکوں پر بکھرا ہوا ملبہ روبیل کے فن پاروں کی ایک نمائش کا روپ دھارے ہوئے ہے اور یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ شہری کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔

بمباری سے متاثرہ علاقے کی ایک دکان کی دیوار پر انہوں نے ایک ایک ایسے آدمی کا چہرہ بنایا، جس نے اپنے چہرے کو بارودی مواد سے چھپایا ہوا تھا۔

گلی کے دوسری جانب ایک تباہ شدہ رہائشی عمارت کے اندرونی حصے پر انہوں نے وائلن بجاتا ہوا ایک انسانی ڈھانچہ بنایا ہے اور اپنے اس شاہکار کو انہوں نے ' سائیلنٹ سفرنگ‘ کا نام دیا۔ اس ڈھانچے  کی کھوپڑی کے گرد امن کی علامات بھی بنائی ہیں۔

یمنی دارالحکومت صنعا میں بھگدڑ میں کم از کم 85 افراد ہلاک

ایک اور تخلیق میں ایک لڑکی سرخ جوڑا پہنے زمین پر بیٹھی ہے اور اس کا سر اس کے بائیں ہاتھ میں ہے اور اس کے قریب ایک کالا کوا میزائل پر بیٹھا ہے،''اس ل‍ڑکی کے پیچھے اس کے انتقال کر جانے والے رشتہ دار سیاہ اور سفید لباس میں کھڑے کھڑکی سے نیچے دیکھ رہے ہیں۔‘‘

روبیل کا کہنا ہے کہ یہ تصویر حقیقی کہانی پر مبنی ہے، ’’اس جگہ رہنے والی لڑکی نے لڑائی کے دوران اپنے گھر والے کھو دیے۔ اس کو لگتا ہے کہ جنگ ایک کھیل ہے اور اس کا خاندان واپس آ جائے گا، تبھی وہ ان سب کا انتظار کر رہی ہے۔

سعودی اور حوثی باغیوں کے درمیان امن مذاکرات

قریب ہی میں رہنے والے بیالیس سالہ امر ابوبکر نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس پینٹگ کے ذریعے ان مرنے والوں کو ایک طرح کا خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے، ''جب ہم  اس جگہ سے گزرتے ہیں تو ہم درد محسوس کرتے ہیں اور ان لوگوں کو محسوس کرتے ہیں جو یہاں موجود تھے۔‘‘

امر ابوبکر نے کہا کہ یہ فن پارے ان لوگوں کے درد اور دکھوں کی عکاسی کرتی ہیں، جن کے گھر تباہ ہو گئے اور وہ بے گھر ہو  گئے۔

یمن میں قیدیوں کا تبادلہ امید کی نئی کرن، تاہم امن اب بھی مشکوک

یمنی خانہ جنگی کی تباہ کاریاں

تقریبا آٹھ سال قبل یعنی 2014ء میں حوثی باغیوں نے یمنی دارالحکومت پر قبضہ کیا تھا، جس کے بعد سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے ایک بین الاقوامی عسکری اتحاد نے حوثیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کی تھیں۔

اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے گئے جبکہ ہزاروں یمنی شہری بھوک اور قحط سالی کی وجہ سے بھی ہلاک ہوئے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے، ان کے گھر اور خاندان تتر بتر ہو  گئے۔

یمن کی امداد کے لیے مطلوبہ رقم سے بہت کم موصول ہوئی، اقوام متحدہ

عدن کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں اپنے برش اور پینٹ کو ہاتھ میں اٹھائے روبیل نے کہا، ''مجھے اس خیال سے بھی محبت ہے کہ یہ جگہ تباہی کے ایک مرکز سے امن کے گہوارے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔‘‘ ان کو امید ہے کہ آرٹ اس شہر کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

م ق / ع ا (اے ایف پی)

فاقہ کشی کا شکار یمنی بچے