1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کا ’’نیا اڈہ‘‘

2 فروری 2010

گزشتہ کچھ عرصے سے یمن مسلسل خبروں میں ہے۔ اِس عرب ملک کو سلامتی کے مختلف النوع مسائل کا سامنا ہے۔ شمالی یمن میں جھڑپیں جاری ہیں تو جنوبی یمن علٰیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/Lpxn
تصویر: DW/AP

چند روز پہلے سامنے آنے والی یہ خبریں بلاشبہ قبل از وقت تھیں کہ یمن اور سعودی عرب کے سرحدی علاقے میں یمنی سرکاری اَفواج اور شیعہ باغیوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ صنعاء سے ملنے والی ابتدائی خبروں میں کہا گیا تھا کہ باغیوں کا سربراہ عبدالملک الحوثی فائر بندی پر رضامند ہو گیا ہے لیکن سرکاری دَستے اصرار کر رہے ہیں کہ الحوثی کو سعودیوں کے خلاف ہر طرح کی معاندانہ سرگرمیاں ترک کرنے کا عہد کرنا ہو گا۔ اور جب تک ایسا نہیں ہوتا، تب تک فائر بندی بھی نہیں ہو گی۔

Jemen Saada Krieg Flash-Galerie
یمنی سرکاری افواج کا ایک سپاہی باغیوں کے خلاف کارروائی کے دورانتصویر: picture-alliance/ dpa

یمنی سیکیورٹی فورسز گزشتہ چھ برسوں سے ملک کے شمال مغرب میں حوثی قبائل کے خلاف برسرِ پیکار ہیں، جو شیعہ مسلمانوں کے زیدی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ باغیوں کی جانب سے سعودی سرزمین پر بھی ہونے والے حملوں کے باعث گزشتہ کچھ عرصے سے یمن کا یہ شمالی ہمسایہ ملک بھی جھڑپوں میں ملوث ہے۔ سعودی فضائیہ نے بھی غالباً بار بار یمنی سرحدی علاقے میں باغیوں کے ٹھکانوں پر حملے کئے ہیں۔ ایسی افواہیں بھی ہیں کہ ایران عبد الملک الحوثی کو ہتھیار، گولہ بارود اور پراپیگنڈہ مواد فراہم کر رہا ہے۔

صنعاء حکومت کو شمالی یمن کے کشیدہ حالات کے ساتھ ساتھ جنوبی یمن کی علٰیحدگی پسند تحریک کا بھی سامنا ہے۔ یمن کا یہ خطہ کبھی ایک سوشلسٹ عوامی جمہوریہ تھا، جس نے سن 1991ء میں یمن کے شمالی حصے کے ساتھ الحاق کر لیا۔ اب جنوبی یمن کے باشندوں کو شکایت ہے کہ اُن کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ وہاں بار بار ایسے گروپوں کے ساتھ تصادم ہوتا ہے، جو دونوں یمنی حصوں کے اتحاد کو پھر سے ختم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

Jemen Ali Abdullah Saleh Flash-Galerie
عشروں سے برسرِ اقتدار چلے آ رہے یمنی صدر علی عبداللہ صالح بظاہر کسی بھی طرح کی امریکی مداخلت کو رد کرتے ہیں۔تصویر: picture-alliance/ dpa

یمن کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ بتدریج مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ گیارہ ستمبر کے حملہ آوروں کی بڑی تعداد سعودی عرب کے ساتھ ساتھ یمن سے بھی تعلق رکھتی تھی اور وطن لوٹنے والے دہشت گردوں کو یہاں بڑی جلدی مدد اور تعاون مل جاتا ہے۔

برسوں سے ایسے شواہد مل رہے ہیں کہ القاعدہ یمن کو اپنا نیا اڈہ بنانا چاہتی ہے۔ یمن میں امریکی اور مغربی تنصیبات بار بار دہشت پسندانہ حملوں کا نشانہ بنی ہیں۔ اِس سلسلے میں تازہ ترین واقعہ ایک امریکی مسافر بردار طیارے کو دھماکے سے اڑانے کی ناکام کوشش ہے۔ نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے حملہ آور کو یمن میں ہی اِس حملے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔

صنعاء حکومت اتنی کمزور ہے کہ وہ ان حالات کا اکیلے مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگرچہ صدر علی عبداللہ صالح اپنے بیانات میں ملکی معاملات میں براہِ راست امریکی مداخلت کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی نہ صرف یمنی اَفواج کو تربیت دے رہے ہیں بلکہ براہِ راست فضائی حملے بھی کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک حالیہ حملے میں القاعدہ کے درجنوں ارکان اور عام شہری مارے گئے تھے۔

رپورٹ: پیٹر فلیپ / امجد علی

ادارت: گوہر نذیر گیلانی