1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہم سب ہمیشہ پاکستان کو ہی برا کیوں کہتے ہیں؟

14 جون 2021

آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں، روڈ نیٹ ورک کے حوالے سے اکیسواں اور رقبے کی بنیاد پر دنیا کا تینتیسواں بڑا ملک۔ اس کے علاوہ دنیا کی گنی چنی ایٹمی طاقتوں میں سے ایک اور مجموعی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بھی بہت زیادہ۔

https://p.dw.com/p/3ur1j
Ismat Jabeen
تصویر: Privat

پاکستان کے بارے میں ایسے مثبت حقائق کی فہرست بہت طویل ہے۔ لیکن ہم سب پھر بھی پاکستان ہی کو برا کہتے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ ان تمام خوبیوں اور خصوصیات کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بہت سی خامیوں اور مسائل کا سامنا بھی ہے۔ یہ فہرست بھی بڑی طویل ہے۔ ایک بڑا مسئلہ وسائل کی وہ غیر منصفانہ تقسیم ہے، جو کم از کم تین سطحوں پر دیکھنے میں آتی ہے۔ عام شہریوں، ریاستی اداروں اور صوبوں کی سطح پر۔

عام شہریوں کی سطح پر وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اس طرح کہ ملکی آبادی میں ایک چھوٹی سی مگر بہت طاقت ور اقلیت وسائل کے بہت بڑی اکثریت کی مالک ہے اور آبادی کی بہت بڑی اکثریت کو اتنے کم وسائل دستیاب ہوتے ہیں کہ ڈرا دینے والی مہنگائی کے باعث نچلے متوسط طبقے سے گر کر غربت کی لکیر سے بھی نیچے چلے جانے والے شہریوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

جب قومی سطح پر وسائل محدود ہوں، ریاست بہت مقروض ہو اور انتخاب ان دو باتوں میں سے کسی ایک کا کرنا ہو کہ روکھی سوکھی آج کھائی جائے اور چپڑی ہوئی کل یا پھر ترجیح اس کے برعکس ہونا چاہیے، تو دنیا کے بہت سے ذمے دار معاشروں میں 'روکھی سوکھی آج، چپڑی ہوئی کل‘ کا راستہ اپنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں لیکن عمومی رویہ یہ ہے کہ چپڑی اور دو دو تو آج کھا لو، کل کی کل دیکھی جائے گی۔

اس اجتماعی رویے کا نتیجہ اور ریاستی اداروں کی سطح پر وسائل کی تقسیم میں توازن کے فقدان کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان گزشتہ کئی عشروں سے آنے والے کل کی فکر کرنے کے بجائے صرف اپنے آج میں ہی زندہ رہتا ہے۔ تعلیم، سماجی ترقی اور صحت عامہ کے شعبوں میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کے بجائے بے تحاشا مالی وسائل دفاعی شعبے کے لیے مختص کر دیے جاتے ہیں۔ ایسے فیصلوں کے کیا نقصانات ہوتے ہیں، یہ موجودہ پاکستان میں ہر جگہ اور ہر روز دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اس بات کا ایک اور نقصان بھی ہے اور وہ یہ کہ جہاں دنیا کے تقریباﹰ سبھی ممالک کے پاس اپنی اپنی فوج ہے، وہیں پاکستان کے بارے میں سیاسی تجزیہ کار طنزاﹰ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں فوج کے پاس ایک ملک بھی ہے۔

اس کے ذمے دار وہ سیاست دان بھی ہیں، جو کسی بھی طرح اور کسی بھی قیمت پر اقتدار میں آنا اور پھر اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں اور جن کی مقامی، صوبائی یا قومی سطح کی سیاست کے دوران نظریں عوام کی تکالیف پر کم اور اپنی جیبوں پر زیادہ رہتی ہیں۔ آج کے پاکستان میں کئی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ ارب پتی سیاست دان ایسے بھی ہیں، جن کا شمار ماضی قریب میں یا ایک دو نسلیں پہلے تک تو سرمایہ دار اشرافیہ میں نہیں ہوتا تھا۔ اس کڑوے سچ میں اب ملک میں دفتری اور عوامی سطح پر جڑوں تک پھیلی ہوئی بدعنوانی اور رشوت خوری کو بھی شامل کر لیجیے تو سمجھ آ جائے گا کہ دنیا کے سب سے بدعنوان معاشروں کی فہرست میں پاکستان کا شمار بہت آگے رہنے والی ریاستوں میں ہی کیوں ہوتا ہے۔

پاکستان کے پاس بطور ایک وفاقی ریاست بے تحاشا وسائل موجود ہیں۔ لیکن صوبوں کی سطح پر عدم مساوات کا عالم یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا، رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا، معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان آج بھی اس حالت میں ہے کہ وہاں ایک اوسط شہری کے حالات زندگی دیکھ کر حکمرانوں پر غصہ آنے لگتا ہے۔ کیا اس میں غلطی بلوچستان کے عوام کی ہے؟ نہیں! کیا غلطی بلوچستان کی حکومت کی ہے؟ ہاں! موجودہ اور سابقہ ان تمام حکومتوں کی جو اب تک اقتدار میں رہیں۔

اسی طرح جس طرح پنجاب، سندھ اور خیر پختونخوا کے پسماندہ علاقوں میں پسماندگی کی ذمے دار لاہور، کراچی اور پشاور میں صوبائی حکومتیں ہیں۔ اس سے آگے بڑھا جائے، تو پاکستان کی مجموعی موجودہ صورت حال کی ذمے دار موجودہ اور سابقہ وفاقی حکومتیں ہیں۔ جب کوئی حکومت یا وزیر صرف یہ سوچ کر اقتدار میں آئے گا کہ بس اس کا پیٹ بھر جائے، تو نتیجہ وہی نکلے گا جو آج کے پاکستان میں نظر آتا ہے۔

انفرادی احساس ذمے داری کے حوالے سے یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ مثلاﹰ کورونا کی وبا کی روک تھام کے لیے عائد پابندیوں کا پورا احترام کتنے پاکستانیوں نے کیا؟ سماجی فاصلوں کے اصول پر کتنے شہری کاربند رہے؟ حد تو یہ ہے کہ بہت سے شہری کورونا ویکسین لگوانے پر ہی آمادہ نہیں۔ انہیں اس ویکسینیشن کے پیچھے بھی عجیب و غریب سازشی نظریات نظر آتے ہیں۔

پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ قوانین سارے موجود ہیں، مگر ان کا احترام نہیں کیا جاتا۔ اکثر اپنے وطن کا دیگر ممالک سے موازنہ کر کے تنقید ہمیشہ اپنے ہی ملک پر کی جاتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی تنقید کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جن قوانین کا احترام نہ کرنے پر وہ اپنے ہم وطنوں پر تنقید کرتے ہیں، انہی قوانین کی وہ خود کتنی پاس داری کرتے ہیں۔ عمومی رویہ یہ ہے کہ سب خامیاں اور برائیاں دوسروں کی وجہ سے ہیں اور ہم خود تو دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ یہی سوچ وہ بلند ترین رکاوٹ ہے، جس کے وجہ سے پاکستان اپنے قیام کے تقریباﹰ تین چوتھائی صدی بعد بھی وہاں تک نہیں پہنچا جہاں وہ پہنچ سکتا تھا۔

پاکستانی عوام کو ضرورت یہ احساس دلائے جانے کی ہے کہ حقوق و فرائض آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ حقوق کے بغیر فرائض نہیں ہوتے اور فرائض کے بغیر حقوق نہیں۔ دونوں میں توازن ہی کا نام انصاف اور ایمانداری ہے۔ ہم سب جس پاکستان میں کیڑے نکالتے نہیں تھکتے، اس کے بارے میں ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم خود بھی تو اسی ملک اور معاشرے کا حصہ ہیں۔ رشوت، منافع خوری، ناانصافی اور مروجہ قوانین کی خلاف ورزیاں، یہ سب قابل سزا ہیں مگر یہ کوئی لاعلاج بیماریاں نہیں ہیں۔

ہمیں صرف یہ یاد رکھنا ہو گا کہ کسی مکان میں رہنے والے کسی شخص یا خاندان کا اگر انفرادی کردار درست نہیں، تو اس میں قصور مکان کا نہیں بلکہ خود مکین یا مکینوں کا ہوتا ہے۔ خامیاں انفرادی ہیں تو انہیں اپنی خوبیاں خود بنائیں۔ نظام خراب ہے، تو اس کی اصلاح حکمران کریں۔ یہ انہی کا کام ہے۔ مکین کے جرم پر مکان کو مجرم قرار نہ دیں۔ ہمیشہ پاکستان کو ہی برا کہنا بند کریں۔ ہم سب کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، مجھے بھی اور آپ کو بھی۔