1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہراسمنٹ: خواتین کے لیے وقت بدلا اور نہ حالات

5 جولائی 2020

ایک زمانے تک خواتین کو گھر سے باہر جانے کی صورت میں ہی ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا مگر اب ڈیجیٹل دور میں اس کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔ سمیرا راجپوت کا بلاگ۔

https://p.dw.com/p/3epLc
Sumaira Rajput
تصویر: Privat

ماشا اللہ کہاں جا رہی ہیں ہم چھوڑ دیں؟ آج تو بہت پیاری لگ رہی ہیں،  شکر ہے آج بھائی ساتھ نہیں، کبھی ہنس بھی لیا کریں، اہم اہم، ہم بھی کھڑے ہیں یہاں۔ ایک زمانے تک خواتین ان جملوں ان الفاظ کی ہی عادی تھیں۔ ان کی زندگی میں اگر کوئی ہراسمنٹ تھی تو وہ تھی، کیٹ کالنگ یا اسٹریٹ ہراسمنٹ۔ لیکن اب ایسا نہیں۔ وقت بدلا،  زمانہ بدلا اور ٹیکنالوجی کا دور شروع ہوا تو مردوں کی جانب سے جاری ہراسمنٹ نے بھی ترقی کر لی۔ یہ نئی قسم کی ہراسمنٹ خواتین کے گھر پہنچ گئی۔ اب کی بار جملے اور طریقہ واردات دونوں ہی ایڈوانس ہو گئے۔ جی وہ نہ میں ماہم کو کال کر رہا تھا یہ ماہم کا نمبر نہیں؟ نہیں یہ ماہم کا نمبر نہیں رانگ نمبر، یہ کہہ کر ابھی فون بند ہی کیا تھا کہ کالز اور ایس ایم ایس کی بھرمار شروع۔ میں آپ سے ہی بات کرناچاہ رہا تھا نام جان بوجھ کر کسی اور کا لیا تھا۔ پلیز، پلیز ایک بار بات کر لیں۔ ایسے لوگوں کا کیا لینا دینا تھا رائٹ اور رانگ نمبر سے ان کے لیے تو ہر نمبر ہی رائٹ نمبر تھا۔  بات یہاں رکی نہیں  بلکہ یوں کہہ لیں بات نے یہاں سے ترقی کی۔ سمارٹ فون کا زمانہ آیا اور وہ سب کچھ جو پہلے ایک ترسے ہوئے طبقے کے لیے محض خواب تھا شرمندہ تعبیر ہو گیا۔ خواتین کی پرسنل پروفائل اور ان کی تصاویر دسترس میں آتے ہی شروع ہوئی آن لائن ہراسمنٹ،  بچی چیک نیا ٹرینڈ بن گیا، خواتین کو ڈک پک بھیجنا عام ہوگیا۔ ہراساں کرنے والوں کی تو پانچوں انگلیاں  گھی میں آ گئیں اور پھر ان کے ہاتھ آئیں پبلک پروفائلز  جنہیں ہر مرد اپنی ذاتی ملکیت  ہی سمجھنے لگا۔ کس خاتون نے کیا لکھا ہے، کیا پوسٹ کیا ہے، کیا کہنا چاہ رہی ہیں، ہر بات سے قطع نظر ان کا فوکس صرف تصاویر ہی بنیں یوں 'نائس پِک‘ ایسے مردوں کا فیورٹ کمنٹ بن گیا۔ جہاں کوئی پبلک پروفائل دیکھی پہنچ گئے پروانوں کی طرح، ان ہراسرز میں اس بات کا خوف بھی نہیں ہوتا کہ جسے ہراس کیا جا رہا ہے وہ انہیں رپورٹ بھی کر سکتا ہے۔ خوف ہو بھی کیسے؟ ہمارے ہراسمنٹ قوانین ہی میں اتنا جھول ہے۔ اگر کوئی رپورٹ کر بھی دے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

یہ قصہ ہے سوشل میڈیا ٹرولنگ کا

عورت پر بلاجواز تبصرہ کرنے سے گریز کریں!

انتباہ: قبائلی خواتین انٹرنیٹ سے دور رہیں!

یہاں تک تو سب ٹھیک ہے، مزہ آرہا ہے خواتین جن کی تصویریں دیکھنے اور آواز سننے کو کان ترس جاتے تھے، اب پبلک پیکچرز پوسٹ کرتی ہیں لائیو ٹالک شوز کرتی ہیں جس میں جو مرضی ٹاپک چل رہا ہو کمنٹ ایک ہی آنا ہے، نائس جی۔ لیکن یہ کیا گھڑا بھر گیا ہے اور پانی بہنا شروع ہوگیا ہے، یہ خواتین تو بولنے لگی ہیں صدیوں سے چلی آئی اس ہراسمنٹ کا جواب دینے لگی ہیں۔ تو آج ایسے مرد اس بات سے خوف زدہ اور پریشان کیوں ہیں؟ آج کیوں انہیں  یہ خوف ہے کہ خواتین جو اپنی عزت کی خاطر برسوں خاموش رہیں اب ان کی عزت چوراہے میں ٹانگ رہی ہیں۔ آج جب خواتین اپنی مرضی کی بات کرتی ہیں تو آپ کی نظروں کے سامنے سے وہ تمام مرضیاں کیوں گزرتی ہیں جو نہ جانے آپ کب سے کرتے آرہے ہیں؟  آج خواتین کا ہر مسئلہ ان کی غیرت کا مسئلہ کیوں بن جاتا ہے اور یہ غیرت صرف گھر تک ہی کیو ں محدود ہے؟ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے۔

گھر، اسکول، دفتر، سڑکیں، آن لائن سپیسز مردوں نے کوئی بھی جگہ محفوظ چھوڑی ہے؟ گھروں میں سوتیلے باپ، بھائی، چچا عزتوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔ اسکولوں میں استاد کے روپ میں ننھی کلیوں کو روندتے ہیں، دفاتر میں باس اور سینیئر بن کر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ان سب سے بچ کر کچھ وقت آن لائن گزارو تو وہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑتے۔

بحیثیت خاتون اور صحافی زندگی کی بہت سی تلخ حقیقتیں جھیلیں ہیں۔ ہزار ہا بار 'کیٹ کالنگ‘ کا شکار ہوئی۔ شروع میں انڈسٹری میں خود کو بچا کر آگے چلنا ہی بہت مشکل تھا۔ اس سب کے بعد اب جب ڈیجیٹل جرنلزم  کا دور آیا  تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہراسمنٹ  بھی ڈیجیٹلائز ہوگئی ہے۔ اپنے اطراف نظر دوڑاتی ہوں تو ہر لڑکی اس کا شکار نظر آتی ہے۔ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر شخص سمجھتا ہے کہ وہ لائسنس یافتہ ہے، میرے بلاگ پر لاجیکل تنقید کرنے کی بجائے گالیاں بکنے کا، میری پوسٹ پر ریسپانس دینے کی بجائے پکچر پر رسپانس دینے کا۔ کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے میری بات انہیں سمجھ ہی نہیں  آتی، بس یہ مرد اپنی روایتی روش کے غلام ہیں۔ اگر کسی ایشو پر ایکٹوسٹ کے طور پر بات کر رہی ہوں تو قطع نظر اس سے کہ کیا بات کر رہی ہوں، میری شکل و صورت پر تبصرے شروع کر دیے جاتے ہیں۔ یہ سب کبھی کبھی انتہائی تکلیف دہ شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جس سے نکلنے میں آگے بڑھنے میں قریبی دوست اور خود اپنا حوصلہ کام آتا ہے۔

میں اکثر خود سے سوال کرتی ہوں کہ کیا کبھی ایسے مرد یہ سوچتے ہیں کہ معاشرے میں جتنا بگاڑ ہے اس میں ان کا حصہ کتنا زیادہ ہے؟ ان کی وجہ سے خواتین کہیں بھی محفوظ نہیں یہ بات انہیں ملامت نہیں کرتی؟ یہ جب آزادانہ سڑکوں پر گھومتے ہیں اور کوئی ایک خاتون دیکھ لیں تو اسکے پیچھے لگ جاتے ہیں، کیا انہیں خواتین کی آزادی کا خیال نہیں؟ ان کے احساسات کا خیال نہیں؟

مجھ سمیت بہت سی خواتین کا ایک ہی مطالبہ ہے۔ جب ہمیں ہمارے گھر کے مرد باہر جانے سے پہلے، انٹرنیٹ کے استعمال سے پہلے، کسی سے تعلق قائم کرنے سے پہلے یہ کہتے ہیں کہ زمانہ خراب ہے تو یہ نہ کہیں کہ زمانہ خراب ہے بلکہ یہ کہیں 'مرد خراب ہیں‘۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید