1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’گھر چھوڑ کے جانے والے چابی ساتھ تھوڑی لے جاتے ہیں‘

2 اکتوبر 2018

یورپی کمیشن کے نائب سربراہ فرانز ٹِمرمانز نے اسٹراس برگ میں یورپی پارلیمان سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ برطانیہ یورپی گھر کو چھوڑتے ہوئے گھر کی چابی ساتھ نہیں لے جا سکتا۔

https://p.dw.com/p/35s7k
UK Anti-Brexit Protest in Birmingham
تصویر: Reuters/D. Staples

ایک ایسے موقع پر جب بریگزٹ مذاکرات اپنے حتمی مراحل میں ہیں اور برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج میں چند ہی ماہ بچے ہیں، ٹمرمانز نے کہا کہ اس سلسلے میں یورپی شہریوں کے مفادات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بریگزٹ مذاکرات میں مکمل کوشش کی جا رہی ہے کہ برطانوی اخراج کے نتیجے میں بلاک کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کیا جائے۔

برطانوی فوج بریگز‌ٹ کے بعد بھی جرمنی میں تعینات رہے گی

جرمن چانسلر میرکل نے برطانیہ کی بریگزٹ تجاویز رد کر دیں

ٹمرمانز نے کہا، ’’لیکن مجھے ایک بات واضح طور پر کہنے دیجیے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ آپ کے گھر سے جا رہا ہے، مگر چابی ساتھ لے جائے گا، تاکہ جس وقت چاہے واپس آ جائے اور گھر سے جو چاہے لے لے، تو ایسا ممکن نہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے ساتھ جاری مذاکرات میں یورپی یونین کی رکن ریاست آئرلینڈ اور برطانوی صوبے شمالی آئرلینڈ کی سرحد اور چیکس پر کسی ڈیل میں یورپی شہریوں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ برطانیہ آئندہ برس مارچ میں یورپی یونین کی رکنیت چھوڑ دے گا، تاہم اب تک فریقین کے درمیان کوئی ڈیل طے نہیں پائی ہے، جس سے یہ واضح ہو کہ بریگزٹ کے بعد یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان تعلق کس نوعیت کا ہو گا۔ یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان سرحدی امور کے علاوہ، شہریوں کی نقل و حمل، فضائی ٹریفک، تجارت اور سلامتی سے متعدد امور پر ضوابط ابھی طے ہونا ہیں۔

اسی تناظر میں برطانیہ میں حکمران قدامت پسند جماعت کے اندر بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ کچھ عرصے قبل بریگزٹ معاملے ہی کے تناظر میں وزارت خارجہ کا قلم دان چھوڑ دینے والے بورس جانسن اس حوالے سے برمنگھم میں پارٹی کی سالانہ کانفرنس سے خطاب کرنے والے ہیں، جس میں ممکنہ طور پر وہ وزیراعظم مے کے بریگزٹ منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے۔ جانسن اس سے قبل بھی یورپی یونین سے اخراج سے متعلق وزیراعظم مے کی پالیسی پر کڑی تنقید کر چکے ہیں۔

ع ت، الف الف (روئٹرز، اے ایف پی)