1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوجرانوالہ سے يورپ: خواب سہانہ لیکن راستہ مشکل

عاصم سليم26 ستمبر 2015

مشرق وسطٰی کے شورش زدہ ملکوں کے علاوہ افغانستان و پاکستان سے بھی سینکڑوں افراد سياسی پناہ کی تلاش ميں اِن دنوں يورپ کا رخ کر رہے ہيں۔ گوجرانوالہ کے شہزاد علی بھی اُن ميں سے ايک ہيں، جو اپنی جان داؤ پر لگا کر جرمنی پہنچے۔

https://p.dw.com/p/1Ge1B
تصویر: Privat

پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کے رہائشی شہزاد علی اپنا ملک، دوست اور رشتہ دار چھوڑ کر ايران، ترکی اور پھر يورپ ميں خطرناک راستوں سے گرزتے ہوئے جرمنی پہنچے ہیں۔ آخر وہ کون سے محرکات تھے، جن کی وجہ پر ایک متوسط گھرانے کے اس چراغ نے اتنا کٹھن اور ايک نامعلوم راستہ اختيار کيا۔

ضلع گوجرانوالہ کی تحصيل نوشہرہ ورکاں سے تعلق رکھنے والے شہزاد علی اِن دنوں جرمنی کے شہر ايسن ميں مہاجرين کے ليے قائم کردہ ايک کيمپ ميں اپنے شب و روز گزار رہے ہيں۔ شہزاد نے يہاں سياسی پناہ کی درخواست جمع کرائی رکھی ہے۔ ڈی ڈبليو نے خصوصی گفتگو ميں اُن کی کہانی سننے اور يہ جاننے کی کوشش کی کہ آيا جن مقاصد کے ليے وہ اِس راستے پر چلے، وہ پورے ہو پائے ہيں يا نہيں؟

يہ اُن دنوں کی بات ہے جب شہزاد اپنی چھٹياں منانے پاکستان کے ساحلی شہر کراچی گئے ہوئے تھے۔ تين مارچ 2013 کو کراچی کے علاقے عباس ٹاؤن ميں ايک شيعہ مسجد کے باہر ہونے والے دھماکے نے شہزاد کی زندگی بدل ڈالی۔ اس ناخوشگوار واقعے ميں جہاں درجنوں افراد ہلاک ہوئے، وہيں شہزاد کے بہنوئی بھی شديد زخمی ہوئے۔ اگرچہ شہزاد کو اُس واقعے ميں براہ راست کوئی نقصان نہيں پہنچا تاہم اُس کی وجہ سے اُن کے دل ميں ايک خوف ضرور بيٹھ گيا۔

Deutschland Flüchtlinge in Berlin
تصویر: picture alliance/dpa/B. von Jutrczenka

شہزاد کا تعلق پاکستان کی ايک ايسی مذہبی اقليت سے ہے، جسے عموماﹰ فرقہ وارانہ حملوں کا سامنا رہتا ہے۔ وہ اکثر اپنے گاؤں نوشہرہ ورکاں ميں مجالس وغيرہ ميں شرکت کيا کرتے تھے، جہاں اُن کے بقول دہشت گردی کے کسی ممکنہ واقعے کا خطرہ معمول کی بات ہے۔ شہزاد علی کے مطابق کتنے ہی ايسے واقعات رونما ہوئے، جن ميں وہ خوشی قسمتی کہيں يا کسی کی دعا کی وجہ سے، بس بال بال بچے۔ مقامی افراد اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سلامتی کے ليے کچھ اقدامات ضرور کرتے ہيں ليکن کراچی والے واقعے نے شہزاد کے دل ميں ايسا خوف بٹھا ديا کہ اُنہوں نے ملک چھوڑنے کا فيصلہ کر ہی ليا۔

ابتداء ميں شہزاد نے اپنے گاؤں ہی سے تعلق رکھنے والے ايک ’ايجنٹ‘ سے مشاورت کی، جس نے شہزاد کو تين لاکھ روپے ميں غير قانونی طور پر ترکی پہنچانے کی يقين دہانی کرائی۔ شہزاد فيصلہ تو پہلے ہی کر چکے تھے۔ اُنہوں نے فوری کچھ رقم اکٹھی کی اور ايجنٹ کی ہدايت پر کوئٹہ کی بس پر سوار ہو گئے۔

کوئٹہ پہنچنے کے بعد شہزاد کو بہت جلد اندازہ ہو گيا کہ يہ سفر اتنا آسان نہيں اور اُن کے سامنے بہت سی دشوارياں کھڑی ہيں۔ شہزاد اور ان کے ساتھ موجود ديگر افراد کو ريگستانوں، پہاڑوں اور درياؤں کو عبور کرتے ہوئے کئی کئی دن پیدل چلنا پڑا۔ جہاں کہيں گاڑی کا سفر دستياب ہوا، ايک چھوٹی گاڑی ميں بارہ سے تيرہ افراد بھر ديے گئے۔ يہاں تک کے گاڑی کے ڈکی تک ميں چار، چار افراد کو بٹھايا گيا۔ غير قانونی طور پر يورپ کی جانب سفر کرنے والوں کو ايران ہی ميں کئی مرتبہ فاقے کاٹنا پڑے حتیٰ کہ اِن لوگوں نے تين، تين دن تک صرف پانی پر گزارا کيا۔ يہ لوگ قريب ڈيڑھ ماہ بعد ايران ميں سلماس کے بارڈر پر پہنچے۔ اِس مقام سے مزيد بارہ گھنٹے کی مسافت کرنے کے بعد يہ لوگ بالآخر ترکی کے شہر وان پہنچ گئے۔

شہزاد نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ ترکی ميں ايجنٹوں نے اِن افراد سے طے شدہ رقم سے زيادہ کا مطالبہ کيا اور انکار کی صورت ميں اُنہيں تشدد کا نشانہ بنايا گیا۔ رقم کی ادائيگی کے بعد شہزاد اور اس کے دیگر ساتھيوں کو استنبول کی بس پر چڑھا ديا گيا۔ استنبول کے بعد مقامی ايجنٹوں کی مدد سے شہزاد اور کئی ديگر مہاجرين ترکی اور يونان کی سرحد پر واقع شہر بوردم پہنچے، جہاں اُنہيں کشتيوں پر سوار کر ديا گيا۔ اُنہوں نے بتايا کہ ايجنٹوں کے دعوؤں کے برعکس چپوؤں سے چلنے والی کشتيوں ميں يہ لوگ قريب آٹھ گھنٹے بعد يونان کے بارڈر پر اترے۔

يونان اترنے کے بعد ان لوگوں کو مقامی پوليس نے گرفتار کر ليا اور اُنہيں کوس بھيج ديا گيا۔ اِس يونانی جزيرے ميں اُنہيں ايک ماہ کے ليے عارضی رہائش کی اجازت ملی، جس دوران اُنہوں نے اپنے گھروں سے مزيد رقم منگوائی کيونکہ جتنی رقم وہ اپنے ساتھ لے کر نکلے تھے، وہ ختم ہو چکی تھی۔ بعد ازاں يونانی دارالحکومت ايتھنز ميں دوبارہ ايجنٹوں کی مدد سے شہزاد نے مقدونيہ، سربيا اور پھر ہنگری سے گزرتے ہوئے بالآخر جرمنی ميں قدم رکھا۔ اِس دوران شہزاد نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے دوستوں کی جانيں جاتی ديکھيں، جنگلوں، باڑوں اور دشوار گزار راستوں پر بھوکے پيٹ سفر کيا اور کئی ايجنٹوں کے چنگل ميں پھنسے۔

جرمنی تک پہنچنے کے ليے شہزاد کو بوداپسٹ سے ايک ٹرين کے ذريعے سفر کرنا پڑا، جس کے بعد وہ سب سے پہلے جرمن شہر ميونخ ميں اترے، جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے انہيں فرينکفرٹ بھيج ديا گيا۔ شہزاد نے سياسی پناہ کے ليے باقاعدہ درخواست شہر مائنز ميں کچھ ماہ قبل جمع کرائی تاہم اب يہ مہاجرين کے ليے جرمنی کے مختلف شہروں ميں قائم عارضی رہائش گاہوں ميں وقت گزار رہے ہيں۔ بيل ول، زولِنگِن اور اب ايسن ۔۔۔ نہ جانے کتنے دن اِسی طرح گزارنے ہوں گے شہزاد اور ديگر کئی مہاجرين کو۔

ڈی ڈبليو سے گفتگو کرتے ہوئے شہزاد کا کہنا تھا کہ وہ جس مقصد کے لیے جرمنی آئے تھے، وہ پورا ہو گيا ہے۔ اُنہيں اپنی جان کا خطرہ تھا اور جرمنی آ کر وہ محفوظ محسوس کر رہے ہيں۔ شہزاد نہيں جانتے کہ اِس ملک ميں اُن کی سياسی پناہ کی درخواست قبول ہو گی يا نہيں اور اگر ہو بھی گئی، تو اُن کا مستقبل کيسا ہو گا؟ البتہ وہ يہ ضرور جانتے ہيں کہ ايسن کی سڑکوں پر پھرتے ہوئے يا اپنے مذہب کی پيروی کرتے ہوئے اب اُنہيں خوف محسوس نہيں ہوتا۔