1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوانتانامو کے پانچ سابقہ قیدی اب قطر میں طالبان کے رابطہ کار

30 اکتوبر 2018

افغانستان میں امریکی فوج کے یرغمال بنائے گئے سارجنٹ بووی برگ ڈاہل کی آزادی کے بدلے گوانتانامو کی امریکی جیل سے رہا کیے گئے پانچ طالبان عسکریت پسند اب قطر میں طالبان کے رابطہ دفتر میں مذاکراتی نمائندے بن چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/37Nue
خلیج گوانتانامو کا امریکی حراستی کیمپتصویر: picture-alliance/dpa/US Navy/Shane T. McCoy

افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے امریکی فوج کے سارجنٹ برگ ڈاہل کو طویل عرصے تک یرغمال رکھا گیا تھا۔ پھر خفیہ رابطوں کے نتیجے میں اس امریکی فوجی کی رہائی اس شرط پر عمل میں آئی تھی کہ امریکا اس کے بدلے میں خلیج گوانتانامو کے حراستی کیمپ سے طالبان کے پانچ اہم رہنماؤں کو رہا کر دے گا۔

USA Afghanistan Soldat Bowe Bergdahl
امریکی فوجی سارجنٹ برگ ڈاہلتصویر: picture-alliance/AP Photo/U.S. Army File

افغان دارالحکومت کابل سے منگل تیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اس بارے میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے آج بتایا کہ گوانتانامو کے یہ پانچوں سابق قیدی اب خلیجی ریاست قطر میں طالبان کے رابطہ دفتر کے اہلکار ہیں، جو مذاکراتی نمائندوں کے طور پر فعال ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ یہ پانچوں افغان شہری اب قطر میں طالبان کے دفتر سے منسلک ہو چکے ہیں اور وہ ہندوکش کی اس ریاست میں قیام امن کے لیے ہونے والے مذاکرات میں طالبان کی نمائندگی کریں گے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ پیش رفت اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ افغان طالبان میں اب کابل حکومت کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کے آغاز اور قیام امن کی خواہش پائی جاتی ہے۔

دوسری طرف طالبان کے انہی پانچ رہنماؤں کے حوالے سے یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ چونکہ وہ سب کے سب ماضی میں طالبان تحریک کے سخت گیر بانی ملا عمر کے بہت قریب رہے ہیں، اس لیے ممکنہ امن مذکرات میں ان کی موجودگی مستقبل کے افغانستان سے متعلق اور ہندوکش کی اس ریاست میں اسلام کی تشریح کے سلسلے میں اسی موقف کے حامل ہوں گے، جو 2001ء میں امریکا کی قیادت میں فوجی مداخلت سے قبل اس ملک میں دیکھنے میں آتا تھا۔

Katar Doha Taliban Vertretung
خلیجی ریاست قطر میں افغان طالبان کا رابطہ دفترتصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal

اس بارے میں اظہار رائے کرتے ہوئے افغان دارالحکومت کابل میں معروف سیاسی تجزیہ کار ہارون میر نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا، ’’طالبان اپنی پرانی نسل کو دوبارہ واپس لاتے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نہ تو قیادت تبدیل ہوئی ہے اور نہ ہی ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔‘‘

ہارون میر کے مطابق ان کے اور ان جیسے کئی دیگر تجزیہ کاروں کے لیے تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ کل اگر طالبان نے کابل حکومت کے ساتھ باقاعدہ امن مذاکرات کا آغاز کر دیا، تو ان کے ساتھ مکالمت کے لیے افغان حکومت کی نمائندگی کون اور کتنی کامیابی سے کرے گا۔

ہارون میر کے بقول یہ پہلو اس وجہ سے بھی پریشانی کا باعث ہے کہ موجودہ افغان حکومت صرف نظریاتی بنیادوں پر ہی نہیں بلکہ نسلی بنیادوں پر بھی واضح تقسیم کا شکار ہے اور یہ تقسیم جلد ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔

افغان طالبان کے یہ پانچ سرکردہ ارکان، گوانتانامو کے سابقہ قیدی اور قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے یہ پانچ نئے مذاکراتی رابطہ کار محمد فضل، خیراللہ خیرخواہ، عبدالحق واثق، محمد نبی اور ملا نوراللہ نوری ہیں۔ یہ سب طالبان دور میں انٹیلیجنس کے نائب وزیر سے لے کر ہرات کے گورنر تک مختلف اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔

م م / ا ا / اے پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں