1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوادر اقتصادی زون کی تعمیر و ترقی، معاہدہ تیار

امجد علی9 ستمبر 2015

پاکستان اپنی گہرے سمندر کی بندرگاہ گوادر پر ایک بہت بڑے خصوصی اقتصادی زون کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک چینی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرنے اور اُسے یہ زون چالیس سال کے لیے پٹے پر دینے کی تمام تیاریاں مکمل کر چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GTsl
Pakistan Hafen Gwadar
گوادر پورٹ کراچی سے جنوب مغرب کی جانب 540 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اسے 2007ء میں تعمیر کیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

یہ بات پاکستان کے سرکاری حکام کی جانب سے بدھ کے روز بتائی گئی ہے۔ اس خصوصی اقتصادی زون کی تعمیر و ترقی اُسی پاک چائنہ اقتصادی کوریڈور کا ایک حصہ ہے، جس میں چھیالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی اور اقتصادی ڈھانچے، توانائی اور ٹرانسپورٹ کے منصوبوں کے ذریعے مغربی چین کو بحیرہٴ عرب سے جوڑ دیا جائے گا۔

گوادر پورٹ اتھارٹی (GPA) کے سربراہ دوستین جمال دینی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے بتایا ہے کہ چین کی اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی (COPHC) کے ساتھ ٹیکس سے مستثنیٰ 923 ہیکٹر (2300 ایکڑ) زمین کو پٹے پر دینے کے معاہدے پر ممکنہ طور پر اسی مہینے یا پھر اگلے مہینے اکتوبر میں دستخط ہو جائیں گے۔

جمال دینی کا مزید کہنا تھا کہ اسی منصوبے کے ایک حصے کے طور پر اگلے چند ماہ کے اندر اندر گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی تعمیر شروع کر دی جائے گی:’’ہمیں کافی امید ہے کہ اگلے مہینے کے اندر اندر گوادر کو شمال سے ملانے والی نیشنل ہائی وے مکمل ہو جائے گی۔‘‘

گوادر کی یہ بندرگاہ رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے پاکستانی صوبے بلوچستان میں واقع ہے، جہاں 2004ء سے بلوچ علیحدگی پسند اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی لیے اس بندرگاہ کی حفاظت کے لیے پاکستان ایک خصوصی سکیورٹی فورس بھی متعین کرے گا، جس کی نفری دس ہزار سے لے کر پچیس ہزار تک ہو گی۔

اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے گوادر پورٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نے چینی کمپنی کو یہ علاقہ چالیس سال کے لیے پٹے پر دینے کے معاہدے کی تصدیق کی۔ گوادر پورٹ کراچی سے جنوب مغرب کی جانب 540 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اسے 2007ء میں بیجنگ حکومت کی تکنیکی مدد اور 248 ملین ڈالر کی چینی مالی امداد کے ذریعے تعمیر کیا گیا تھا۔

گوادر پورٹ اتھارٹی (GPA) کے سربراہ دوستین جمال دینی کے مطابق گوادر میں زمین مختلف لوگوں کی نجی ملکیت میں تھی اور اُن سے اقتصادی زون کے لیے زمین کے حصول میں کئی سال کا عرصہ لگ گیا۔ مزید یہ کہ اس مقصد کے لیے بلوچستان حکومت نے تقریباً باسٹھ ملین ڈالر خرچ کیے۔

Karte China Pakistan geplanter Wirtschaftskorridor Gwadar - Kaschgar
پاک چائنہ اقتصادی کوریڈور میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی، اقتصادی ڈھانچے، توانائی اور ٹرانسپورٹ کے منصوبوں کے ذریعے مغربی چین بحیرہٴ عرب سے جڑے گاتصویر: DW

کچھ بلوچ قوم پرستوں نے الزام عائد کیا ہے کہ چینی، پاکستان کے مقتدر طبقوں کے ساتھ مل کر بلوچستان کے معدنی وسائل لوٹنے کی سازش کر رہے ہیں اور اس پورٹ سے ہونے والے منافع میں مقامی آبادی کو شریک کرنے یا اُن کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات ناکافی ہیں۔

تاہم جغرافیائی اور سیاسی امور پر نظر رکھنے والی ایک خاتون تجزیہ کار سِمبل خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ چین نے اسی طرح کے معاہدے افریقہ کے ساتھ ساتھ ویت نام، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ بھی کیے ہیں اور یہ کہ گوادر کا منصوبہ چین اور پاکستان دونوں کے لیے بے انتہا اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔ اُنہوں نے بتایا:’’پاکستان اس منصوبے کی جانب اس اعتبار سے دیکھ رہا ہے کہ اس سے سارا پانسہ ہی پلٹ جائے گا اور اس کے نتیجے میں اقتصادی ڈھانچے کی تعمیر و ترقی اور سرمایہ کاری کے ایک نئے باب کا آغاز ہو گا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید