1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گندھارا تہذیب اور مغرب میں پاکستان کا امیج

16 مارچ 2009

ایسا نہیں کہ پاکستان کے ’امیج‘ بہتر بنانے کے لیے بلکل بھی کوششیں نہیں ہو رہی ہیں۔ اکیس نومبر دو ہزار آٹھ سے بون شہر میں شروع ہونی والی گندھارا نمائش انہی کاوشوں کا حصّہ تھی۔

https://p.dw.com/p/HCF0
بدھ مت کی تہذیب کا ایک اہم مرکز پاکستان کے ان علاقوں میں واقع ہے جہاں انتہا پسندوں کی شورش جاری ہے

سن دو ہزار ایک میں سامنے آنے والی ایک خبر نے دنیا بھر کو دہلا کر رکھ دیا۔ اس وقت افغانستان پر برسرِ اقتدار طالبان نے بامیان میں موجود گوتم بدھ کے تاریخی مجسمے کو بارود لگا کر اڑا دیا تھا۔ گندھارا تہذیب کے اس عظیم ورثے کو نیست و نابود کرنے کے پیچھے کیا مقصد تھا؟ گندھارا تہذیب کے مرکز پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں سے پاکستان کے ’امیج‘ کو بیرونی دنیا میں کیا نقصان پہنچا ہے؟

مگر ایسا نہیں کہ پاکستان کے ’امیج‘ بہتر بنانے کے لیے بلکل بھی کوششیں نہیں ہو رہی ہیں۔ اکیس نومبر دو ہزار آٹھ سے بون شہر میں شروع ہونی والی گندھارا نمائش انہی کاوشوں کا حصّہ تھی۔ بدھ تہذیب کی اس عظیم وراثت کو دیکھ کر جرمن باشندوں کے پاکستان کے بارے میں خیالات میں یقیناً تبدیلی آئی ہے۔

Afghanistan Taliban
سن دو ہزار ایک میں افغانستان پر برسرِ اقتدار طالبان نے بامیان میں موجود گوتم بدھ کے تاریخی مجسمے کو بارود لگا کر اڑا دیا تھاتصویر: AP


اکیس نومبر دو ہزار آٹھ سے بون میں جاری رہنے والی گندھارا نمائش پندرہ مارچ کو یہاں اختتام پذیر ہوئی۔ اپریل سے یہ نمائش جرمن دارلحکومت برلن جا رہی ہے جہاں یہ اگست تک جاری رہے گی اور اس کے بعد یہ سوئٹزرلینڈ پہنچ جائے گی۔ یقیناً پاکستان کے لیے یہ ایک اعزاز کی بات ہے۔

بون کے بنڈس کنسٹ ہالے یا وفاقی ثقافتی مرکز میں گندھارا نمائش دیکھنے کے لیے آنے والے افراد کی کمی نہیں تھی۔ نمائش کے آخری دنوں میں بھی یہاں کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے جو پاکستان کے اس تہذیبی ورثے کو دیکھنے آئے تھے۔ نہ صرف یہ کہ اس نمائش میں بے مثال تصاویر اور مجسمے نمائش کے لیے رکھے گئے تھے بلکہ یہاں گندھارا سے متعلق ڈاکومینٹری فلمیں بھی دکھائی جا رہی تھیں۔

مگر ذیادہ تر لوگوں کی توجّہ کا مرکز بامیان میں بدھ کے ان مجسموں کی تھری ڈی فلم تھی جن کو سن دو ہزار ایک میں افغانستان میں طالبان حکومت نے تباہ کردیا تھا۔ اس تھری ڈی فلم نے ایک لحاظ سے بامیان کے اس مجسمے کو ذندہ کردیا تھا۔

ہمیں تجسّس اس بات کا تھا کہ نمائش دیکھنے والے ان افراد کے ذہنوں میں پاکستان کی کیا تصویر بن رہی ہے۔

نمائش میں شریک ایک ادھیڑ عمر شخص سے جب ہم نے پوچھا کہ کیا انہوں نے گندھارا کا نام اس سے پہلے سنا تھا، تو انہوں نے کہا: میں نے یہ نام سنا تھا مگر اب میں گندھارا اور پاکستان کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کررہا ہوں۔ پاکستان کے بارے میں میں نے بہت کم سنا تھا۔ بس یہی سنا تھا کہ وہاں طالبان بدھ کے بڑے مجسموں کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ سن کر بہت افسوس ہوا تھا۔ ہم یہاں بامیان کے مجسمے کی صرف فلم ہی دیکھ سکے۔ ہم نے یہاں آکر یہ جانا کہ پاکستان ایک مختلف ملک ہے۔‘

نمائش میں آئیں ایک خاتون کا اس حوالے سے کچھ یہ کہنا تھا: میں گندھارا کے بارے میں اس سے پہلے کچھ نہیں جانتی تھی۔ پھر میں نے اس نمائش کے بارے میں سنا تو میں یہاں چلی آئی کہ اس بارے میں کچھ جان سکوں۔ میں پاکستان کی تاریخ کے بارے میں تو کچھ نہیں جانتی بس وہی آج کل کے سیاسی حالات کے بارے میں سن رکھا ہے جو میڈیا میں آتا رہتا ہے اور پاکستان کے بارے میں میری رائے اسی طرح بنی ہے۔ یہاں جو کچھ ہم نے دیکھا وہ اس سے بے حد مختلف ہے۔‘

نمائش میں مختلف اسٹال بھی لگائے گئے تھے جہاں گندھارا تہذیب سے جڑی مصنوعات فروخت کی جا رہی تھیں۔