1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گلگت بلتستان میں انتحابات کی اجازت پر بھارت برہم

4 مئی 2020

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 3مئی کوایک کرنل اور بریگیڈیئر سمیت سکیورٹی فورسز کے پانچ افراد کی ہلاکت کے دوسرے دن بھارت نے گلگت بلتستان کے معاملے پر پاکستان سے احتجاج کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3bkZv
Indien Polizei Polizist mit Waffe
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/F. Khan

بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستانی سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان کے زیرانتظام گلگت  بلتستان میں انتخابات کرانے کی اجازت کے حوالے سے اسلام آباد سے سخت احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ''وہ اپنے غیر قانونی طورقبضہ والے تمام علاقوں کو خالی کر دے۔“

بھارت کا کہنا ہے کہ کشمیر سے متعلق تمام علاقوں کے حوالے سے پاکستانی حکومت یا پاکستانی عدالت، کسی کو بھی کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔

پاکستان سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے گلگت  بلتستان کی حکومت سے متعلق  2018 کے آرڈر میں ترمیم کی اجازت دی تھی تاکہ وہاں آئندہ ستمبر میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے راستہ ہموار ہو سکے اور انتخابی عمل کے مکمل ہونے تک ایک عارضی حکومت تشکیل دی جا سکے۔ حالانکہ گلگت  بلتستان میں انتخابات کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن بھارت کو اس مرتبہ یہ بات کچھ زیادہ ہی ناگوار گزری ہے اور اس نے سفارتی سطح پر احتجاج کیا ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ایک سینئر پاکستانی سفارت کار کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے انہیں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ ''قانونی طور پر مکمل اور اٹوٹ الحاق کی وجہ سے، مرکز کے زیر انتظام جموں کشمیر، لداخ اور گلگت  بلتستان سمیت تمام علاقے بھارت کے جزوء لا ینفک ہیں۔  بھارت اس طرح کی کارروائیوں اور بھارت کے جموں و کشمیر کے جن علاقوں پر پاکستان کا غیر قانونی قبضہ ہے اس میں تبدیلیاں کرنے کی اس کی مسلسل کوششوں کو یکسر مسترد کرتا ہے۔'' 

Kaschmir | Proteste in Kaschmir
تصویر: Reuters/A. Abidi

بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کارروائی سے، ''پاکستان اپنے غیر قانونی قبضوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور گزشتہ سات عشروں سے ان مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے استحصال اور ان کی آزادی کی خواہش کو مسترد کرنے کے اپنے اقدامات کی پردہ پوشی نہیں کر سکتا ہے۔ پاکستان کو تمام غیر قانونی مقبوضہ علاقوں کو فوری طور پر خالی کر دینا چاہیے۔''بیان کے مطابق بھارتی پارلیمان 1994 میں اس حوالے سے واضح طور پرایک متفقہ قرارداد منظور کرچکی ہے۔

 بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے بھارتی وزارت خارجہ کے اقدام کی تصدیق کی تاہم سوال کیا کہ پاکستانی سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک ہفتے بعد اس طرح کا احتجاج ایک عجیب بات ہے۔ ان کا کہنا تھا ''بھارتی موقف کوئی نئی بات نہیں اور پاکستان اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا۔'' 

خیال رہے کہ گزشتہ تین مئی کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے ساتھ بھارتی فوج کا ایک کرنل اور ایک بریگیڈیئر سمیت پانچ فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے۔ بھارتی فوج کا دعوی ہے کہ اس آپریشن میں دو عسکریت پسند بھی مارے گئے، جس میں سے ایک پاکستانی شہری شامل تھا۔ بھارت میں اس پر شدید رد عمل ہوا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے فوجی افسران کی ہلاکت سے متعلق اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ”ہم یہ قربانی ضائع نہیں ہونے دیں گے۔'' 

Pakistan Abgebrannte Schulen
تصویر: DW/A. Sattar

 ایک ایسے وقت جب کورونا وائرس کے پیش نظر پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہے کشمیر سے تقریبا روز ہی تشدد کی کوئی نہ کوئی خبر آتی رہی ہے، تاہم سینیئر فوجی افسران کی ہلاکت کے پس منظر میں کافی دنوں بعد پاکستان کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں اشتعال انگیز پروگرام پھر شروع ہوگئے ہیں۔ ٹی وی پر ایک بار پھر سے انتقام، جنگ اور جوہری جنگ کے نعروں کے ساتھ بحث چھڑ گئی ہے۔ اس میں سابق فوجی افسران اور مبصر پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں کرتے ہیں۔ اس وقت کورونا وائرس کے سوا کوئي بڑی خبر بھی نہیں تھی اور اس طرح کے پروگرام سے کئي ٹی وی چینلز ٹی آر پی میں اضافا چاہتے ہیں۔  

بھارت میں مودی کی حکومت نے گزشتہ برس آنا فانا کشمیر کو  حاصل نہ صرف خصوصی اختیارات ختم کر دیے تھے بلکہ اس کا ریاستی درجہ ختم کرکے اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا۔ بھارت نے کشمیر کے تمام بڑے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا اور عوامی رد عمل سے بچنے کے لیے بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کا پہرہ لگا دیا تھا۔ فون، موبائل اور انٹرننیٹ سروسز کو معطل کرتے ہوئے وادی کشمیر کے تقریبا تمام علاقوں میں کرفیو جیسی بندیشیں عائد کر دی گئی تھیں۔ کئی مہینوں سے لوگ وہاں کرفیو جیسی صورت حال میں رہ رہے تھے کہ کورنا کے سبب لاک ڈاؤن نافذ کرنا پڑا اور حکومت کی جانب سے عوام پر اب بھی بہت سی  پابندیاں نافذ ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں