1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گلگت بلتستان میں اسکول تباہ، شدت پسندی پھر سر اٹھا رہی ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
3 اگست 2018

پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں درجن بھر اسکولوں کو شر پسندوں نے حملہ کر کے جلا دیا۔ ان واقعات کے بعد اس خدشے کو بھی ہوا مل رہی ہے کہ عسکریت پسند ایک بار پھر اس حساس علاقے میں سر اٹھا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/32ahX
Pakistan Abgebrannte Schulen
تصویر: DW/A. Sattar

یہ واقعات جمعرات کی رات گلگت بلتستان کے ڈسٹرکٹ دیامر کی تحصیلوں دارل اور تنگر میں رونما ہوئے۔ اس واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ابھی تک یہ اطلاعات ہیں کہ گیارہ اسکولوں کو شر پسندوں نے جلایا ہے، جس میں سے چھ سے زائد لڑکیوں کے اسکولز ہیں۔ گیارہ، آٹھ اور چھ شر پسند ٹولیوں کی شکل میں آئے اور اسکولوں پر حملہ آور ہوئے۔ کچھ اسکولوں پر انہیں مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ انتظامیہ نے پورے علاقے کی ناکہ بندی کر دی ہے۔ علاقے کی فضائی نگرانی بھی کی جارہی ہے اور شر پسندوں کو گرفتار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔‘‘

لیکن علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ تباہ ہونے والے اسکولوں کی تعداد تقریبا تیرہ ہے۔ دارل کے علاقے سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن انجینیئر ہادی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں متاثرہ علاقے کا رہنے والا ہوں۔ میری اطلاعات کے مطابق تیرہ اسکولوں کو تباہ کر دیا گیا ہے جن میں سات لڑکوں اور چھ لڑکیوں کے اسکول ہیں۔ پانچ برس پہلے بھی تنگر اور دارل کی تحصیلوں میں پانچ اسکولوں کو تباہ کیا گیا تھا۔ اب مجموعی طور پر اٹھارہ اسکول تباہ ہوگئے ہیں۔ اس تباہی کے ذمہ دار ایسی دہشت گرد تنظیمیں ہیں، جو مذہب کے نام پر نفرت پھیلا رہی ہیں اور لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کو گناہ سمجھتی ہیں۔ یہ عناصر ہمیں پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری پسماندگی کے ذمہ دار گلگت بلتستان کے ترقی یافتہ اضلاع کے وہ حاکم بھی ہیں، جنہوں نے علاقے کی ترقی کے لیے کبھی کچھ نہیں کیا۔ اس واقعے پر پورا علاقہ سراپا احتجاج ہے۔ اگر حکومت نے انتہا پسند عناصر کو لگام نہ دی تو مذہبی نفرت کی آگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔‘‘

دیامر کا علاقہ ماضی میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے متاثر رہا ہے۔ کچھ برسوں پہلے یہاں اہلِ تشیع کی بسوں پر فائرنگ کر کے کئی لوگوں کو ہلاک کیا گیا تھا، جب کہ نانگا پربت پر غیر ملکی سیاحوں پر بھی حملے کیے گئے تھے۔

گلگت بلتستا ن سے تعلق رکھنے والے نوجوان دانشور عامر حسین کے خیال میں گزشتہ کچھ برسوں میں مذہبی عناصر جی بی میں کمزور ہوئے ہیں تاہم وہ اب بھی موجود ہیں اور ریاست کے لیے کسی وقت بھی خطر ہ بن سکتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے عامر حسین کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں انتہا پسند عناصر خطے میں اپنی موجودگی ظاہرکرنا چاہتے ہیں۔ وہ دیامر میں قبائلی سرداروں اور سیاست دانوں کے بعد ایک تیسری طاقت کے طور پر ابھرے تھے۔ افغان جہاد، کشمیر جہاد اور ملک میں فرقہ واریت کی لہر نے ان عناصر کو گزشتہ تین عشروں میں طاقتور بنا دیا تھا ۔ تاہم حالیہ برسوں میں گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ سیاست سی پیک کی وجہ سے کمزور پڑی۔ کچھ سیاسی و معاشی مسائل نے بھی عوام کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا۔ جس کی وجہ سے یہ انتہا پسند عناصر کمزور ہورہے تھے۔ اب اسکول جیسے آسان ٹارگٹ کو نشانہ بنا کر انہوں نے انتظامیہ کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ اگر حکومت نے فوری ایکشن نہیں لیا تو اب تک ہونے والے تمام ملٹری آپریشنز پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ جائے گا۔‘‘

اس واقعے کی وجہ سے نہ صرف علاقے میں غصے کی لہر دوڑ گئی ہے بلکہ قومی رہنماؤں نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اس حملے کو بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کی ایک مذموم کوشش قرار دیا۔ کئی سماجی تنظیموں نے اس واقعے کے خلاف دیامر میں مظاہرے بھی کیے ۔

واضح رہے کہ گلگت بلتستان کا شمار فرقہ واریت کے حوالے سے پاکستان کے حساس ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ اس خطے میں مجموعی طور پر اثناء عشری شیعہ اور اسماعیلی شیعہ برادری کی اکثریت ہے۔ خطے کے دس ڈسٹرکٹ میں سے صرف دیامر ڈسڑکٹ میں سو فیصد سنی ہیں۔ ہنزہ ڈسڑکٹ میں نوے فیصد سے زیادہ اسماعیلی ہیں جب کہ بقیہ آٹھ ڈسٹرکٹ میں شیعہ سنی مخلوط آبادی ہے تاہم زیادہ تر میں اکثریت شیعہ مسلمانوں کی ہے۔ یہ علاقہ سی پیک کا گیٹ وے بھی کہلاتا ہے اور سی پیک کے کئی اہم منصوبے یہاں زیرِ تعمیر ہیں۔ بھارت اس علاقے کو متنازعہ قرار دیتا ہے کیونکہ اسے بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

ماہرین کا خیال میں حکومت کو اس مسئلے پر فوری توجہ دینی چاہیے کیونکہ دیامر میں بھاشا ڈیم تعمیر ہو رہا ہے اور یہ علاقہ سی پیک کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ اگر عسکریت پسند یہاں قدم جمانے میں کامیاب ہوئے تو اس کے انتہائی منفی نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں۔