1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’گرے لسٹ‘ سے اخراج، پاکستان کو فائدہ کیا ہو گا؟

عبدالستار، اسلام آباد
17 جون 2022

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے برلن میں منعقدہ تین روزہ اجلاس میں پاکستانی حکومت کے کچھ اعلیٰ عہدے داروں نے بھی شرکت کی۔بعض ماہرین کے خیال میں گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان کے لئے معاشی اور مالی فوائد کے راستے کھل سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4CrWW

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے بعد پاکستان کے کئی حلقوں میں گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات پر بحث ہو رہی ہے اور دوسری طرف کچھ ماہرین اس بات پر بھی غور و فکر کر رہے ہیں کہ اگر پاکستان اس لسٹ سے نکل جاتا ہے تو اسے کس نوعیت کے معاشی، سیاسی اور مالی فائدہ ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس تین روز منگل سے جمعرات تک برلن میں منعقد ہوا تھا۔

پاکستانی میڈیا کی بعض رپورٹوں میں دوعوی کیا گیا ہےکہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔ تاہم وزارت خارجہ اور وزارت اطلاعات کے ذرائع نے میڈیا کو تلقین کی کہ وہ اس بارےمیں قیاس آرائی سے گریز کرے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اپنی ایک ٹویٹ میں میں کہا کہ اس حوالے سے کل یعنی ہفتے کے روز سرکاری طور پر ایک پریس کانفرنس کی جائے گی۔ انہوں نے میڈیا سے درخواست کی کہ وہ اس حوالے سے قیاس آرائی سے گریز کریں۔ وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے بھی اپنی ایک ٹوئیٹ میں بھی اسی نوعیت کا ایک پیغام دیا۔

 واضح رہے کہ پاکستان گزشتہ کچھ برسوں سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے، جس کو پاکستان میں کئی حلقے سیاسی حربہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم معاشی اور مالی امور کے ماہرین اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ان کے خیال میں گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان کے لئے معاشی اور مالی فوائد کے راستے کھل سکتے ہیں۔

ساکھ بہتر ہوگی

 سابق وزیر خزانہ اور معاشی امور کے ماہر سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل جاتا ہے، تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ملک کی ساکھ بہتر ہوگی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گرے لسٹ میں ہونے کی وجہ سے آپ کے بینکنگ نظام اور مالی نظام پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اگر پاکستان کو گرے لسٹ سے ہٹا دیا جاتا ہے تو ان سوالات کی گنجائش بھی نہیں رہے گی اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے جو اعتراضات اٹھائے جارہے تھے، ان اعتراضات کا بھی خاتمہ ہو جائے گا، جس سے سرمایہ کاروں کا پاکستان کی مارکیٹ پر اعتماد بڑھے گا اور ممکنہ طور پر ملک میں مزید سرمایہ کاری آسکتی ہے۔‘‘

گرے لسٹ سے نکلنا معیشت کے لیے ضروری ہے، حنا ربانی کھر

مغربی سرمایہ کاری کا امکان

 لاہور سے تعلق رکھنے والے ماہر معیشت ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں سے نکلنے کے بعد پاکستان کے لیے یورپی ممالک کی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چین نے گرے لسٹ میں ہونے کے باوجود بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کیونکہ چین پاکستان کا بہت قریبی دوست تھے۔ لیکن مغربی ممالک ایف اے ٹی ایف کے مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور وہ ایسے ممالک میں سرمایہ کاری کرنے سے اجتناب برتتے ہیں، جو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہوں کیونکہ ان کو ڈر ہوتا ہے کہ کل اگر یہ ملک بلیک لسٹ میں چلا گیا، تو ان کا سارا سرمایہ ڈوب  جائے گا۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں سے نکلنے کے بعد امکان ہے کہ یورپی یونین کے ممالک اور مغرب ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے آئیں گے۔‘‘

ڈاکٹر قیس اسلم کے مطابق اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت سرمایہ کاری کی مناسب سہولیات فراہم کرے۔ ''کئی مغربی ممالک کے کی سرمایہ کار سیاحت، مذہبی سیاحت اور دوسرے شعبہ جات میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ اگر حکومت نے اس حوالے سے مناسب پالیسی بنائی تو قومی امکان ہے کہ وہ ان کو پاکستان کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جائے۔‘‘

کوئی فرق نہیں پڑے گا

تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں سے نکلنے کے بعد بھی پاکستان کو اقتصادی طورپر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معروف معیشت دان اور سابق وزیراعظم عمران خان کی اقتصادی کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو ر کھنا ایک سیاسی حربہ تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ تاثر غلط ہے کہ ایف اے ٹی ایف میں ہونے کے بعد آپ کے ملک میں  سرمایہ کاری نہیں ہوگی۔ پاکستان 2004 ء سے وقتاﹰ فوقتاﹰ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہا ہے۔ لیکن دو ہزار چار، پانچ، چھ اور سات میں پاکستان میں اچھے خاصی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ تو میرے خیال میں پاکستان پرکوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔‘‘

ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق پہلے امریکہ اور مغربی ممالک پاکستان سے ناراض تھے، اس لئے انہوں نے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا ہوا تھا اور بھارت کا بھی اس میں بہت ہاتھ تھا۔ ''اب ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان بھارت سے تعلقات بہتر کرنے جارہا ہے، جس کی مثال بلاول بھٹو زرداری کے بیانات ہیں، جس میں وہ بھارت سے تجارت کی بات کر رہے ہیں اور ایک طریقے سے کشمیر کے مسئلہ کو بھولنے کا کہہ رہے ہیں۔ تو ایف اے ٹی ایف خالصتاﹰ ایک سیاسی مسئلہ تھا اس کا معیشت سے یا مالی امور سے  سے بنیادی طور پر کوئی گہرا تعلق نہیں ہے۔‘‘

پاکستان گرے لسٹ میں ہی رہے گا، ایف اے ٹی ایف