1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینیا میں دوبارہ انتخابات کروائے جائیں: یورپی یونین

Gowhar Nazir17 جنوری 2008

کینیا میں گُذشتہ ماہ متنازعہ صدارتی انتخابی نتائج کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے حامیوں کے مابین تصادم آرائی اور پرتشدد وارداتوں کے نتیجے میں اب تک کم از کم 620 افراد ہلاک جبکہ ڈھائی لاکھ لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ملک میں آج بھی پولیس اور مُظاہرین کے مابین تصادم ہوئے۔دوسری جانب یورپی پارلیمان نے کینیا میں دوبارہ انتخابات منعقد کرانے پر زور دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/DYFR
تصویر: picture-alliance/ dpa

آج مسلسل دوسرے روز بھی کینیا کی پولیس اور اپوزیشن کے حامی مُظاہرین کے درمیان تصادم ہوئے جن کے نتیجے میں اب تک کم از کم تین افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ہلاک شدگان میں ایک پانچ سالہ بچہ بھی شامل ہے۔

تین روزہ ملک گیر احتجاجی مُظاہروں کی کال اپوزیشن جماعت ORANGE DEMOCRATIC MOVEMENTنے دے رکھی ہے ۔اپوزیشن‘ کینیا کے صدر موائی کیباکی کی انتخابی جیت کو تسلیم کرنے سے یہ کہہ کر انکار کررہی ہے کہ صدر نے الیکشن نتائج کو اپنے حق میں کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کیں تاہم صدر موائی کیباکی ان الزامات کو مسترد کرچکے ہیں۔

دارالحکومت نیروبی اور مشرقی قصبے KISUMU میں آج جمعرات کے روز پولیس نے حکومت مخالف مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے گولیوں اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔حکومت نے احتجاجی ریلیوں اور مظاہروں پر پابندی عائد کر رکھی ہے تاہم پابندی کے باوجود‘ اپوزیشن راہنما‘ RAILA ODINGA‘ کی سربراہی میں ملک کی دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی احتجاجی ریلیاں نکال رہی ہیں۔

صدارتی انتخابات میں موائی کیباکی کی کامیابی نے کینیا میں ایک سیاسی بحران پیدا کردیا۔ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت‘ ORANGE DEMOCRATIC MOVEMENT‘ کے قائد RAILA ODINGA نے انتخابات کو ایک ڈرامہ قرار دیا اور صدر موائی کیباکی کے استعفے کے علاوہ نئے صدارتی انتخابات کا مطالبہ بھی کیا۔

آج جمعرات کو یورپی پارلیمان نے بھی بحران کے حل کے لیے کینیا میں نئے صدارتی انتخابات منعقد کرانے پر زور دیا۔سٹراسبورگ میں یورپی پارلیمان نے اس سلسلے میں ایک قرارداد بھی منظور کرلی۔اس قراردار میں کہا گیا ہے کہ اگر دوبارہ انتخابات ممکن نہیں ہیں تو کم از کم ایک غیر جانبدار اور آزاد تنظیم سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرائی جائے۔ قراردار میں مزید کہا گیا ہے کہ کینیا کے بہتر مستقبل کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حقیقی معنو ںمیں اس ملک کا اپنا ایک آزاد اور غیر جانبدار انتخابی کمیشن ہو‘ جو صاف و شفاف انتخابات کو یقینی بنا سکے۔

بین الاقوامی انتخابی مبصرین نے بھی الیکشن کے صاف و شفاف انعقاد اور انتخابی نتائج پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔ بحران کے حل کے لئے افریقی یونین کے چیئرمین‘ جان آجی کم کُفور‘ JOHN AGYEKUM KUFOURکی ثالثی کی کوششیں بھی ناکام ہوگئیں تھی۔

موجودہ سیاسی بحران کے نتیجے میں کینیا کی مضبوط معیشت‘ اس کے سیاحتی شعبے اور جمہوری شناخت کو کافی نقصان پہنچاہے۔

ستائیس دسمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد ملک کے حالات نے ایسی کروٹ لی جس کا شاید کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا۔تشدد کی اس لہر میں صدر کیباکی کے حامی قبیلے اور اپوزیشن کے حامی قبائل کے مابین خون ریز تصادم ہوئے جو اب بھی وقفے وقفے سے جاری ہیں۔صدر موائی کیباکی کے حامی KIKUYU قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کو بڑی تعداد میں ہجرت کرنا پڑی ہے۔ہجرت کی وجہ صدر موائی کیباکی کی انتخابی جیت ہی بنی۔

دریں اثناءانٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس IFJنے اپنے ایک بیان میں کینیا کی حکومت سے ملک کے ذرائع ابلاغ پر عائد پابندیوں کو مکمل طور پرہٹادینے کا مطالبہ کیا ہے۔