کینیا: عدالت عظمیٰ نے صدارتی اليکشن کے نتائج مسترد کر ديے
1 ستمبر 2017انتہائی سخت سکیورٹی میں کینیا کی سپریم کورٹ نے موجودہ صدر اُوہورو کینیاٹا کے اليکشن نتائج کے مطابق دوبارہ صدر منتخب ہونے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ملکی الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ ساٹھ دنوں کے اندر اندر نئے انتخابات کرائے۔ گزشتہ ماہ کے اوائل میں ہونے والے صدارتی الیکشن کو کینیاٹا نے 54 فیصد کے قریب ووٹ حاصل کر کے جیتا تھا۔
صدارتی نتائج کا اعلان اور پرتشدد واقعات شروع
کینیا میں الیکشن، سکیورٹی ہائی الرٹ
ٹرمپ کے حکم نے خاندانوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا
کینیا کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ڈیوڈ ماراگا نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ رواں برس آٹھ اگست کا انتخابی عمل دستور کے مطابق نہیں تھا۔ تاہم فیصلے میں عدالت نے موجودہ صدر یا پارٹی کے کسی عہديدار پر پولنگ کے دوران دستور کے منافی کام کرنے کی ذمہ داری عائد نہیں کی ہے۔
صدارتی الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اپوزیشن کے امیدوار رائلا اوڈنگا نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی اور اس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ووٹ ڈالنے کے دوران الیکٹرانک پولنگ کے نتائج کو تبدیل کرتے ہوئے انہیں صدر کینیاٹا کے حق میں موڑا گیا۔ چھ رکنی عدالتی بنچ کے چار ججوں نے انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دیا جبکہ دو نے اکثریتی فیصلے کی خلاف نوٹ لکھا۔
کینیا میں صدارتی نتائج کو عدالت نے پہلی مرتبہ کالعدم قرار دیا ہے۔ ملکی الیکشن کمیشن نے اس کا اعتراف کیا تھا کہ ووٹنگ کو ہیک کرنے کی کوشش ضرور کی گئی تھی لیکن اُسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔
کینیا کی اپوزیشن جماعتوں کے لیڈر رائلا اوڈنگا نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ براعظم افریقہ میں اس فیصلے کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اوڈنگا نے پہلی ستمبر کو ملکی تاریخ کا ایک یادگار دن قرار دیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا کہ افریقہ کی جمہوری تاریخ میں ایسا عدالتی فیصلہ پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے۔
حکومتی وکلاء کی ٹیم کے سربراہ احمد نصیر عبدالہی نے سپریم کورٹ کو فیصلہ سنانے سے قبل دلائل مکمل کرنے کے دوران کہا تھا کہ انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ انتہائی سیاسی ہو سکتا ہے لیکن وہ اور اُن کے موکل اس کے تمام نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔