1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پومپیو کے دورے سے تعلقات خوشگوار ہوں گے؟

عبدالستار، اسلام آباد
5 ستمبر 2018

پاکستان کے وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو سے ان کی ملاقات کے دوران ماحول بدلا ہوا نظر آیا لیکن ملک میں کئی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا اپنے ’ڈو مور‘ کے موڈ سے باہر نہیں نکلے گا۔

https://p.dw.com/p/34N5g
Bildkombo Imran Khan Mike Pompeo

جس انداز میں آج اسلام آباد میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کا استقبال کیا گیا، اس سے بھی یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ یہ تعلقات خوش گواری کی طرف نہیں جا رہے۔ آج  بروز بدھ جب پومپیو اسلام آباد پہنچے تو پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر ڈاکڑ ظفر اقبال اور دیگر سرکاری اہلکاروں نے ان کا استقبال کیا۔

سیاسی مبصرین کے خیال میں کیونکہ دونوں ممالک افغانستان کے مسئلے پر اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لہذا اس دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی گرم جوشی پیدا نہیں ہوگی بلکہ امکان یہ ہے کہ دونوں ممالک میں دوریاں مزید بڑھیں گی۔

خارجہ امور کے کئی ماہرین کے خیال میں افغانستان سے متعلق امریکا کے مطالبات غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔ پاکستان کی سابق سفیر برائے ایران فوزیہ نسرین کے مطابق امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے کر آئے اور یا پھر ان کے خلاف کاررائیاں کرے۔

فوزیہ نے مزید کہا، ’’لیکن مسئلہ یہ ہے کہ طالبان اب پاکستان پر انحصار نہیں کرتے۔ ان کے روس اور ایران سے تعلقات بڑھ رہے ہیں کیونکہ دونوں ممالک افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے پریشان ہیں۔ خود کچھ امریکی حکام بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ماسکو طالبان کی مدد کر رہا ہے ۔ تو ایسے میں وہ پاکستان پر یہ الزام کیسے عائد کر سکتے ہیں کہ وہ طالبان کی مدد کر رہا ہے۔ کیونکہ طالبان کے اب خطے کے دوسرے ممالک سے بھی تعلقات بہتر ہور ہے ہیں۔ تو یہ کہنا حقیقت پسندانہ نہیں کہ طالبان پر اسلام آبادکا اب بھی اثر ورسوخ ہے۔‘‘

’برابری کی توقع تو نہیں لیکن حالات بہتر ہوں گے‘

فوزیہ نسرین کا کہنا تھا کہ طالبان نے افغانستان کے بڑے حصے پر عملی طور پر اپنی رٹ قائم کی ہوئی ہے، ’’تو ایسی صورت میں وہ پاکستان میں اپنی پناہ گاہیں کیوں ڈھونڈیں گے۔اب جلال الدین حقانی مرا بھی افغانستان میں ہے اور دفن بھی وہیں ہوا ہے۔ تو میرے خیال میں پاکستان کے لیے امریکی مطالبات ماننا مشکل ہے کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے درمیان تعلقات میں کوئی گرم جوشی نہیں آئے گی۔‘‘

امریکا پاکستان پر الزام لگاتا رہا ہے کہ وہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی مدد کرتا ہے اور یہ کہ ان کے پاکستان میں محفوظ ٹھکانے ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی سیاست دان اور تجزیہ نگار اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کی افغان پالیسی امریکا سے کشیدہ تعلقات کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے۔

پاکستانی ایوانِ بالا سینیٹ کے رکن اور افغانستان کے امور پر گہری نظر رکھنے والے عثمان کاکڑ کے خیال میں جب تک اسلام آباد یہ پالیسی تبدیل نہیں کرتا ، دونوں ممالک کے تعلقات میں خوشگواری نہیں آئے گی، ’’امریکا کے مطالبات بہت واضح ہیں کہ پاکستان افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرے اور کالعدم تنظیموں کو لگام دیں۔ مجھے تو دور دور تک نظر نہیں آتا کہ اسلام آباد اپنی اس پالیسی کو تبدیل کر رہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے تعلقات دنیا اور امریکا سے سرد ہی رہیں گے اور ان میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ ہم دنیا میں مزید تنہا ہو سکتے ہیں، جو ملک کے لیے بہتر نہیں۔‘‘

لیکن کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں گو کہ تعلقات فوری طور پر بہتر نہیں ہوں گے لیکن ان میں کوئی ابتری بھی نہیں آئے گی۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں پومپیو نئی حکومت کے دماغ کو پڑھنے کے لیے آئے ہیں،’’ماضی میں امریکا نے دباو کے ذریعے پاکستان سے مطالبات منوائے ہیں لیکن اب ملک میں ایک نئی قیادت ہے۔ جس نے امریکا کو ایک حقیقت پسندانہ اندازمیں سمجھایا ہے کہ ہم دباومیں نہیں آئیں گے۔ امریکا کو ہماری ضرورت ہے۔ اس کا اس خطے میں سب سے بڑا جاسوسی کا مرکز پاکستان میں ہے۔ اسے افغانستان کے حوالے سے ہماری ضرورت ہے۔تو وہ یہ نہیں کرے گا کہ ہمیں بالکل ہی نظر انداز کردے ۔ تاہم تعلقات میں فوری طور پر کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ لیکن امید ہے کہ آگے چل کے کچھ تعمیری کام ہوں گے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں