1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا شکست کے بعد اسلامک اسٹیٹ کا وجود ختم ہو گیا؟: تبصرہ

17 مارچ 2019

اسلامک اسٹیٹ اب اپنے زیرقبضہ تمام علاقے کھو چکی ہے، مگر تبصرہ نگاہ رائنر ہیرمان کے مطابق یہ سمجھنا قبل ازوقت ہو گا کہ جہادی سوچ اور کارروائیاں اس پیش رفت سے ختم ہو جائیں گی۔

https://p.dw.com/p/3FCnV
Ein irakischer Soldat
تصویر: picture-lliance/AP Photo/K. Mohammed

خودساختہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ اپنی شکست سے قریب ہے۔ عسکری طور پر دیکھا جائے تو بین الاقوامی برادری کے مشترکہ اور ٹھوس اقدامات اس تنظیم کی شکست کی وجہ ہیں۔ تاہم یہ سوچنا ایک بے وقوفانہ عمل ہو گا کہ اسلامک اسٹیٹ کے زیرقبضہ آخری ٹھکانے کی آزادی کے بعد تمام چیزیں معمول کی طرف لوٹ جائیں گی اور دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی ضرورت نہیں ہو گی۔

دہشت گردی میں ملوث جرمنوں کی شہریت منسوخ کر دی جائے گی

بشار الاسد کی موجودگی میں شام میں امن ممکن نہیں، الحریری

اس بارے میں محتاط رہنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جہادی سلفی ازم، اس دہشت گردانہ نظریہ کے پس پردہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام قدامت پسند سلفی نظریات کے حامل افراد دہشت گرد ہیں، کیوں کہ بہت سے سلفی پرامن زندگی گزار رہے ہیں، تاہم ایسے افراد اب بھی موجود ہیں، جو تشدد کے ذریعے دنیا پر مسلمانوں کے راج پر یقین رکھتے ہیں۔

Rainer Hermann, FAZ & Klett-Cotta
تصویر: Helmut Fricke

عسکری طور پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ ممکنہ طور پر اب اپنے مکمل زوال کے قریب ہے، مگر نظریاتی طور پر ایسا نہیں۔ عسکریت پسند سلفی نظریات کے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قریب تیس ہزار جنگجو پچھلے دو برسوں میں روپوش ہو چکے ہیں۔

ان میں سے کچھ تو یقیناﹰ اپنے گھروں کو لوٹ کر ایک عمومی زندگی شروع کرنے کے خواہاں ہوں گے، مگر کچھ ایسے بھی ہوں گے، جو ایک نئے موقع کی تلاش میں رہیں گے تاکہ وہ ایک مرتبہ پھر عسکریت پسندی کا راستہ چن سکیں۔ ایسا اس صورت میں بھی ممکن ہے کہ اگر شام میں اس تنظیم کے خلاف لڑنے والی فورسز اگر یہ علاقہ خالی کرتیں ہیں، تو ایسی صورت میں پیدا ہونے والا عسکری خلا یہ جہادی پُر کر سکتے ہیں۔ جہادیوں نے سن 2014ء میں ایسے ہی خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت تیزی سے شام اور عراق کے ایک وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔

’’اسلامک اسٹیٹ‘ اور اس کی اتحادی تنظیموں سے متعلق اس سے قبل بھی نادرست اندازے لگائے جاتے رہے ہیں، سن 2008ء میں اسلامک اسٹیٹ کی شکست اور اس کے جہادیوں کے روپوش ہو جانے کے بعد بہت کم افراد یہ سمجھتے تھے کہ یہ تنظیم اچانک اتنی مضبوط ہو جائے گی۔

صرف تین برس بعد ہی اس کے رہنما نے اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھا اور ایک نئے ماحول اور ترتیب کے ساتھ سامنے آ گیا اور اپنی تنظیم کو یک جا کر دیا۔ اس بار بھی اس سے مختلف نہیں ہو گا۔ عسکریت پسند ایک روایتی گوریلا جنگ شروع کر سکتے ہیں، اپنے دہشت گردانہ حملے جاری رکھ سکتے ہیں اور خوف کی فضا قائم رکھ سکتے ہیں۔ اور وہ مغربی دنیا کو دہشت زدہ کرنے کی کارروائیاں بھی کر سکتے ہیں۔ اس لیے نہایت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

دہشت گردی سے نمٹنے کا فقط ایک موثر طریقہ ہے۔ نئی نسل کو بہتر زندگی کے حالات مہیا کیے جائیں۔ انہیں بولنے کا حق دیا جائے اور ان کے ساتھ مناسب انداز سے پیش آیا جائے۔ دوسری صورت میں کسی اچھے مستقبل کے خواب کے بغیر نوجوان شدت پسندی اور دہشت گردی کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔

’اسلامک اسٹیٹ‘ کے زیرقبضہ علاقے کی آزادی اس جہت میں پہلا قدم ہے، کیوں کہ اب اس علاقے کے پریشان حال نوجوان ایک خودساختہ خلافت میں ’اسلامی زندگی‘ گزارنے پر مجبور نہیں ہو پائیں گے۔

تبصرہ: رائنر ہیرمان، ع ت، ع الف