1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی صورتِ حال امید افزا ہے؟

صائمہ حیدر
6 مارچ 2017

اگرچہ سعودی عرب میں قدامت پسند سوچ کے حامل افراد کی جانب سے کھیلوں میں خواتین کی شمولیت کی مزاحمت کی جاتی ہے تاہم حقوقِ نسواں کے حوالے سے بڑھتے ہوئے شعور کے سبب سعودی خواتین پُرامید بھی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2YhXd

Saudi Arabien Weibliche Saudi Pferdetrainerin sieht Hoffnung für Frauen
گوالصائیبی ایک دہائی سے زیادہ وقت بیرونِ ملک گزارنے کے بعد چار سال قبل وطن واپس آئی ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Hilabi

دانا الگوصائیبی نے برطانیہ اور امریکا سے گھوڑوں کی تربیت سازی کی ٹریننگ حاصل کی ہے۔ سعودی عرب دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں خواتین پر سخت پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ تاہم خواتین کے حقوق کے حوالے سے سعودی عرب میں بلند ہوتی آوازوں اور حالات میں مقابلتاﹰ بہتری کے بعد گھوڑوں کی اِس خاتون تربیت کار کو امید ہو چلی ہے کہ ایک دن وہ اپنا ذاتی کاروبار چلانے کا خواب پورا کر سکے گی۔

گوالصائیبی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا،’’یہاں ایک بہت عجیب عقیدہ ہے کہ غیر شادی شدہ خاتون کو گھڑ سواری نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے اُسے جسمانی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ حیران کُن ہے کہ اب بھی لوگ ایسی باتوں پر یقین کرتے ہیں۔‘‘

پینتیس سالہ گو الصائیبی کا خواب ہے کہ وہ گھوڑوں کا اصطبل کھولیں جہاں وہ مردانہ حاکمیت والے سعودی معاشرے میں رائج گھوڑوں کی ٹریننگ کے مروجہ طریقوں سے ہٹ کر اپنے منفرد انداز سے گھوڑوں کی تربیت کر سکیں۔

Symbolbild Saudi Arabien Frau Politik
سعودی عرب دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں خواتین پر سخت پابندیاں عائد کی جاتی ہیںتصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine

گوالصائیبی ایک دہائی سے زیادہ وقت بیرونِ ملک گزارنے کے بعد چار سال قبل وطن واپس آئی ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ سعودی معاشرے میں تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ گو الصائیبی نے بتایا،’’ میں جب واپس آئی تو خواتین کو بطور کیشئیر، سیلز کے شعبے، اور دفاتر میں کام کرتے ہوئے دیکھا۔‘‘ گزشتہ برس سے سماجی اور اقتصادی اصلاحات کے لیے ایک حکومتی منصوبے کے اجرا نے اِس رحجان کو مزید تقویت بخشی ہے۔

 سعودی حکومت اپنے ’’وژن 2030‘‘ کے منصوبے کے تحت زیادہ سے زیادہ خواتین کو ملک کی  افرادی قوت کا حصہ بنانا چاہتی ہے اور اسی لیے کھیلوں کے شعبے میں امکانات کو وسیع بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ گزشتہ سال سعودی حکومت نے شاہی خاندان کی ایک فرد شہزادی ریما بنت بندر السعود کو خواتین کے کھیل کا نگران مقرر کیا ہے۔

 دوسری جانب برطانیہ اور امریکا سے تربیت یافتہ گھڑ سوار ٹرینر گو الصائیبی کا کہنا ہے کہ بطور ٹرینر انہیں بہت سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خاص طور پر  گھڑ سواری کی تربیت کے لیے اُن کے نقطہ نظر سے لوگ متفق نہیں ہوتے۔ ان کی رائے میں،’’ آپ کو گھوڑے کے ساتھ ایک خاص تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آپ پر اعتماد کر سکے۔‘‘ گو الصائیبی کہتی ہیں کہ اگرچہ اب بہت سی خواتین گھڑ سواری سیکھ رہی ہیں لیکن معاشرے میں اِسے اب  بھی مشکل سے ہی قبول کیا جا رہا ہے‘‘