1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا زہر بھی ’حلال‘ ہے؟

عاطف توقیر
12 نومبر 2018

کھانا کھاتے ہوئے فقط یہ جان لینا کافی نہیں کہ یہ خوراک حلال ہے یا نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کہیں وہ زہر تو نہیں؟

https://p.dw.com/p/38761
DW Akademie Veranstaltung Medien International und Media Dialog
تصویر: DW Akademie/Philipp Böll

کافی برس ہوئے جرمن دارالحکومت برلن میں مجھے ایک ہفتے ایک صحافتی ٹریننگ کے لیے قیام کرنا تھا۔ اس تربیتی ورک شاپ میں میرے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے دوست بھی تھے۔ صبح سے لے کر شام پانچ بجے تک کی تھکا دینے والی دوڑ دھوپ کے بعد کھانے کے لیے طے یہ پایا کہ ہم سب کو کسی ریستوران کا رخ کرنا چاہیے۔ میں نے کسی بھارتی یا پاکستانی ریستوران سے استفادے کا مشورہ دیا، جو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک ریستوران پہنچے، تو باہر ایک مشہور ہندوستانی اداکارہ کے نام کا بورڈ لگا تھا، جو اس ریستوران کا نام بھی تھا۔ ریستوران نہایت سلیقے سے بنایا گیا تھا اور آرائش اس انداز سے کی گئی تھی کہ ہندوستان یا پاکستان ہی کی کسی بیٹھک کا گمان ہو۔ مختلف ہندوستانی اداکاراؤں اور اداکاروں کی تصاویر تھیں، مگر ایک کونے میں سلطان راہی کی ایک قد آور تصویر اور نکڑ پر حلال کا لاحقہ دیکھ کر میں پورا معاملہ سمجھ گیا۔ مالک کی کچن میں کارکنوں کو گر سکھانے والی چنگھاڑتی اردو میں پنجابی گھلی ہوئی ملی، تو بات اور بھی واضح ہو گئی۔ یہ ریستوران ایک پاکستانی کا تھا اور وہاں کام کرنے والے بھی سبھی اس کے اپنے پیٹی بھائی تھے۔

میرے ساتھ چوں کہ عمومی ٹیبل کے مقابلے میں زیادہ افراد تھے، اس لیے مجھے ریستوران کے مالک کو یہ بتانا تھا کہ وہ ہمارے لیے دو تین میزیں جوڑ دے، ورنہ ہم اس ریستوران میں لگے آئینوں سے پھوٹنے اور پھر دوسرے آئینوں سے سر پھوڑتے عکس کی طرح سارے ریستوران میں پھیل جائیں گے۔ مالک سے گفت گو ہوئی، تو پہلے اردو اور پھر پنجابی اور پھر پوٹھوہاری تک جا نکلی۔ اس ریستوران کے مالک کا تعلق میرے آبائی گاؤں ہی کی تحصیل دینہ سے تھا اور یوں دو چار منٹ کے بعد شناسائی یوں تھی کہ جیسے اسکول ساتھ ہی جاتے تھے۔

Museum für Ekelhaftes Essen
تصویر: picture-alliance/AP/A. Barte Telin

خیر مدعے کی بات یہ ہے کہ اسے جرمن قوانین سے بے حد پرخاش تھی، کہنے لگا، بھائی! عجیب فضول لوگ ہیں۔ چند دن ہوئے میں یہاں فرج سے چکن نکال رہا تھا، جو بڑے بڑے ڈبوں میں بند تھا۔ ایک ڈبہ نکال کر زمین پر رکھا اور دوسرا نکالنے لگا تھا، تو فوڈ انسپکٹر نے مجھے آ دبوچا۔ سیدھا اندر آ گیا اور کہا کہ یہ چکن والا ڈبہ نیچے کیوں رکھا ہے۔ اس سے قبل کہ میں کوئی وضاحت دیتا، اس نے میرے ہاتھ میں پندرہ سو یورو جرمانے کی پرچی تھما کر اس چکن کو تلف کرنے کا حکم بھی جڑ دیا۔ میں اس پاکستانی کی آنکھوں میں اس چکن کے علاوہ پندرہ سو یورو کے غم پر ماتم اور مظلومیت سمجھ سکتا تھا۔ ایسے میں بوسنیا سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست نعیم زیچیری نے کندھے پر ہاتھ رکھا، کہنے لگا، یہاں کھانا حلال ہوتا ہے؟ میں نے کوئی جواب دینے کی بجائے، دیوار کے ایک طرف ہماری جانب دیکھتی ’حلال‘ کی تختی کی جانب اشارہ کر دیا اور وہ مسکراہٹ کے ساتھ واپس گروپ سے جا ملا۔

ہماری عادت یہی ہے کہ جتنا ہمیں یہ جاننا ضروری لگتا ہے کہ گوشت حلال ہے یا نہیں، اتنا یہ جاننا ضروری نہیں لگتا کہ کھانا حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق تیار ہوا ہے یا نہیں۔

کراچی سے خبر موصول ہوئی ہے کہ دو بچے ایک ریستوران میں کھانا کھانے کے بعد فوڈ پوائزننگ کی نذر ہو کر جان کی بازی ہار گئے۔

کچھ روز قبل ٹی وی کے کسی ’چھاپہ مار پروگرام‘ کا کوئی کلپ نگاہ سے گزرا، جس میں ایک قصاب گدھے کی کھال اتار رہا تھا اور صحافی دیوار سے کود کر ایک کیمرے سمیت اس تک پہنچ کر پوچھنے لگا کہ یہ تم گدھا کیوں کاٹ رہے تھے، تو قصائی نے بڑے اعتماد سے جواب دیا، گدھا ’حرام‘ تھوڑی ہے۔

Pakistan Spezialität Essen
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/R. S. Hussain

صحت مند معاشروں میں جرم کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور گناہ کو انسان اور خدا کے بیچ کا معاملہ قرار دے کر انسان کے سپرد رکھا جاتا ہے۔ ریاست اور قانون معاشرے میں جرم کو روکنے کے لیے سدباب کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں روایت کچھ یوں بن گئی ہے کہ جرم ہوتا ہے، تو ہوتا رہے، مگر ہمیں ’گناہ‘ روکنا ہے۔

ان بچوں کے والدین کو پورا یقین اور تسلی ہو گی کہ انہیں اور ان کے بچوں کو کھلایا جانے والا گوشت ’حلال‘ ہے اور یہ تسلی کرنا انہوں نے، معاشرے نے اور حکومت نے اور ریاست نے ضروری نہیں سمجھا ہو گا کہ انسانوں کو دیا جانے والا کھانا صحت بخش بھی ہے یا نہیں۔

کراچی کا یہ ریستوران کوئی واحد جگہ نہیں۔ صفائی ستھرائی کی حالت کا عالم ہمارے سامنے ہے۔ کچھ روز قبل تو پاکستان میں جرمن سفیر مارٹن کوبلر، جو عموماﹰ پاکستانی کھانوں اور مختلف تفریحی مقامات کی تصاویر اپنی مسکراہٹوں کے ساتھ لگاتے نظر آتے ہیں، اسلام آباد کی ایک سڑک پر کچرے کے ڈھیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ درخواست کرتے نظر آئے کہ یہ کچرہ انسانی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

اس لیے صرف ’حلال‘ کی تختیاں لٹکی دیکھ کر اطمینان سے اپنے بچوں کو زہریلا کھانا کھلانے کے تیار ہونے کے بجائے یہ اطمینان کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ کھانا زہریلا نہ ہو۔ زہر کسی بھی صورت میں حلال نہیں ہے۔