1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا جمہوریت کی پتی سے کٹ سکتا ہے ’اسٹیبلشمنٹ کا جگر‘؟

سلمان حیدر
20 جون 2018

پھول کی آخری پتی پر ملن لکھا ہے یا جدائی یہ سامنے آنے میں زیادہ دن باقی نہیں لیکن کیا طویل مدت میں ہی سہی گھسے پٹے شعر کے الفاظ میں جمہوریت کی پتی اسٹیبلشمنٹ کا جگر کاٹ سکے گی؟

https://p.dw.com/p/2zqd2
Salman Haideris
تصویر: Privat

ہو گا، نہیں ہو گا، ہو گا ہو گا، نہیں ہو گا، نہیں، ہوگا۔ پچھلے کچھ مہینوں بلکہ یوں کہیے کہ سال بھر سے سیاسی تجزیہ کار دیسی فلموں کی ہیروئن کی طرح اندر کی خبر کے ناخن سے جمہوریت کا پھول فیتی فیتی کرتے ہوئے یہ اندازہ لگانے میں مصروف رہے ہیں کہ انہی فلموں کی ہیروئن کی طرح جمہوریت کی رکتی اٹکتی چلتی سنبھلتی ریل اپنا سفر پورا کرے گی بھی یا نہیں؟ گارڈ نے جھنڈی دکھا دی تو کیا ہو گا؟

سفر پورا ہوا تو اس کا اختتام الیکشن کے جنکشن پر ہو گا یا طویل المدت ٹیکنوکریٹ حکومت کا انجن لگا کر گاڑی چھکاچھک نکل جائے گی اور اگلی منتخب حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہونے کی منتظر سیاسی جماعتیں کسی کثیر العیال خاندان کی طرح اپنے زیر سرپرستی سیٹ سنبھالنے کے منتظر امیدواروں میں ٹکٹ بانٹتی رہ جائیں گی۔

اعلان تو ہو گیا، لیکن کیا پاکستان میں الیکشن ہوں گے؟

امید اور ناامیدی کے بیچ تجزیوں کا یہ پنڈولم یوں تو کچھ عرصہ پہلے سابقہ ہونے والی مسلم لیگی حکومت کے 2013ء کا الیکشن جیتنے کے کچھ عرصہ بعد ہی ہلنا شروع ہو گیا تھا جب دھاندلی کے الزامات اور مہندی کے گانوں سے بھرپور 6 سے 9 کے بیچ رش لینے والی دھرنے کی فلم چھوٹی اسکرینوں کی زینت بنی تھی۔

لیکن اس وقت الیکشن ہونے یا نہ ہونے سے زیادہ پھول کی پتیاں انگلی کھڑی ہونے یا نہ ہونے پر قربان ہوئیں تھیں۔ جاوید ہاشمی فلم کی کہانی ریلیز ہونے سے پہلے سنا کر سپلائر کا کردار ادا کر چکے تھے لیکن شائقین فلم دیکھے بغیر ان کی کہانی کی تصدیق یا تردید کرنے کی پوزیشن میں بہرحال نہیں تھے۔ انگلی مطلوبہ تعداد میں احتجاجی کارکنوں کے جمع نہ ہو سکنے کی وجہ سے کھڑی نہیں ہوئی یا ہاشمی لیکس نے اس کا سکوپ ختم کر دیا یہ تو اگلی اسپائی کرانیکلز میں ہی سامنے آئے گا لیکن بہر حال احتجاج کی کراسنگ سے حکومت کی گاڑی صحیح سلامت گزر آئی۔

پتیاں نوچنے کا اگلا مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب سابقہ آرمی چیف کی حکومت کی مدت پوری ہوئی جسے ہم سب ملازمت کہنے پر مصر رہے۔ جانے کی باتیں جانے دو اب آ جاؤ کے بینرز لگنے سے فیلڈ مارشل بننے اور ایکسٹینشن ملنے نہ ملنے کی خبریں تجزیے کے ڈائیسیکشن ٹیبل پر رکھی جاتی رہیں اور حکومت کے اعضاء علیحدہ علیحدہ خوردبین کے نیچے رکھ کے اس کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ ہوتا رہا۔

اس مرحلے پر بھی فیصلہ بالآخر یہی سامنے آیا کہ حکومت کے ہڈی ہو نا ہو اسٹیبلشمنٹ کے دل میں جمہوریت کا درد ضرور ہے سو آئی سی یو میں ہی سہی حکومت اپنی طبعی عمر کو پہنچے گی۔

نئے آرمی چیف بھی پچھلے آرمی چیف کی طرح جمہوریت پسند کھرے سپاہی وغیرہ وغیرہ ہیں یہ کہہ کر ابھی حکومت خود کو تسلی دی ہی رہی تھی کہ ڈان لیکس کا حادثہ پیش آ گیا اور دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا کی دھن بجنے لگی۔ اس بار حکومت کو ایک آدھ وزیر دو ایک مشیروں کی قربانی دے کر جمہوریت کا صدقہ اتارنا پڑا لیکن بلا ابھی ٹھیک سے ٹلی نہیں تھی کہ پانامہ پیپرز کا بین الاقوامی اسکینڈل سامنے آ گیا۔

ٹیکس کے کاغذ ملکیت کی فردیں شیل کمپنیاں بے نامی اکاونٹ منی لانڈرنگ کے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے۔ معاملہ عدالت تک پہنچا جوڈیشل مارشل لاء کا غلغلہ ہوا۔ قطر سے خط آنے جانے لگے شہزادے آئے، رہے چلے بھی گئے۔ جے آئی ٹی بنی پیشیاں ہوئیں تصویریں لیک ہونے اور واٹس ایپ کال پر بنچ بننے کی خبریں گرم ہوئیں اور آخر کار حکومت کے پھیپھڑے میں سے کرپٹ نا اہل وزیر اعظم کی رسولی نکال کر جمہوریت کا سانس بحال رکھا گیا۔

یہاں پہنچ کر وینٹی لیٹر پر زندہ جمہوریت کو صحت کی بحالی تک ہسپتال میں آرام کرنے دینے اور اس کی جگہ طویل المدت ٹیکنوکریٹ گورنمنٹ کو موقع دینے کی ماہرانہ آراء آنی شروع ہوئیں۔ الیکشن ہوں گے نہیں ہوں گے کا پھول پھر نچنے لگا۔ اسی دوران چیف جسٹس صاحب نے اپنے جمہوریت پسند ہونے کا یقین بھی خدا جانے خود کو یا ہمیں دلایا لیکن دلایا ضرور۔

خدا خدا کر کے حکومت کی مدت پوری ہوئی الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا اور نگران حکومتوں کے سربراہوں کے نام سامنے آئے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ بلوچستان حکومت کے وزیر داخلہ نے جاتے جاتے یہ عرض گزاری کی ہے کہ لوگوں کی اکثریت الیکشن کے دنوں میں حج پر ہو گی سو زیادہ نہیں تو مہینے بھر کو الیکشن ملتوی کر دیے جائیں۔

پھول نوچنے کا موقع تو تجزیہ کاروں کو دستیاب ہے لیکن زیادہ تر کی رائے اب یہی ہے کہ ہاتھی گزر گیا تو دم بھی گزر ہی جائے گی۔ پھول کی آخری پتی پر ملن لکھا ہے یا جدائی یہ سامنے آنے میں زیادہ دن باقی نہیں لیکن کیا طویل مدت میں ہی سہی گھسے پٹے شعر کے الفاظ میں جمہوریت کی پتی اسٹیبلشمنٹ کا جگر کاٹ سکے گی؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں