1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا بھارت جنگ کی تیاری کررہاہے؟

صلاح الدین زین سرینگر، کشمیر
29 جون 2020

بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں سرحدی تنازعے کے تعلق سے کشیدگی میں کمی کے کوئی آثار نہیں دکھائی دے رہے ہیں جبکہ بھارت کی جانب سے فوج کی نقل و حرکت میں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3eTqg
Konflikt China Indien | Ganderbal-Grenze
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/I. Abbas

بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں سرحدی تنازعے کے تعلق سے کشیدگی میں کمی کے کوئی آثار نہیں دکھائی دے رہے ہیں جبکہ بھارت کی جانب سے فوج کی نقل و حرکت میں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔خطہ کشمیر کے مختلف علاقوں سے فوجی قافلے مسلسل  لداخ کی جانب رواں دواں ہیں اور جنگی طیاروں کی نقل و حرکت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

کشمیر میں مقامی انتظامیہ نے گزشتہ روز حکام کو آئندہ دو ماہ کے لیے ایل پی جی گیس سلینڈر کا ذخیرہ جمع کرنے کی ہدایت دی ہے دوسری جانب مرکزی کشمیر کے ضلع گاندر بل میں تمام سرکاری اور نجی اسکولوں کو فوج کے لیے خالی رکھنے کی ہدایات بھی سامنے آئی ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ماضی قریب میں اس طرح کی ہدایات پہلے کبھی نہیں آئی تھیں اور اس سے لوگوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔

مشرقی لداخ کی وادی گلوان اور ڈیپسنگ جیسے علاقوں میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بھارت نے اپنی فوج میں زبردست اضافہ کیا ہے اور اس کے مطابق وہ ایسا علاقے میں چینی فوج کی موجودگی کے سبب کر رہا ہے۔ بھارت کے ایک معروف انگریزی اخبار نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ بھارت نے چین کے ساتھ سفارتی اور فوجی سطح پر بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ''جب بھی اور جہاں بھی ضرورت پڑے اسے عسکری جواب کے لیے بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ ہم قدم پیچھے نہیں ہٹانے والے، ہم ان کا مقابلہ کریں گے۔''

Satelliten-Aufnahme umstrittene Grenze China Indien
تصویر: Reuters/Maxar Technologies

 اخبار کے مطابق جب سینئر حکومتی نمائندے سے جنگ کی صورت میں ہونے والی بڑی پیمانے کی تباہی اور اس کے نتائج کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ اس کے سنگین مضمرات برآمد ہوسکتے ہیں، تو جواب ملا کہ ''نتائج کے بارے میں بہت زیادہ فکر کرنے سے ہم پیش رفت یا پیش قدمی نہیں کر سکتے۔''

بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر جب سے حالات کشیدہ ہوئے ہیں حکومت کے کسی نمائندے کی جانب سے جنگ کے تعلق سے اس طرح کے سخت بیانات پہلی بار سامنے آئے ہیں۔ اس بیان اور زمینی حقائق کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ بھارت کی جانب عسکری تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔

 آئندہ دو ماہ کے لیے ایل پی جی گیس سلینڈر کا ذخیرہ جمع کرنے اور گاندر بل میں تمام سرکاری اور نجی اسکولوں کو فوج کے لیے خالی رکھنے کی ہدایت کے متعلق مقامی انتظامیہ نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ جموں سری نگر کی شاہراہ پر زمین کھسکنے کے واقعات پیش آسکتے ہیں جس سے راستہ منقطع ہونے کا خطرہ ہے اس لیے یہ ہدایت جاری کی گئی ہے، تاہم لوگ کہتے ہیں کہ تودے کھسکنے کے واقعات تو برف گرنے کے موسم میں زیادہ پیش آتے ہیں، گرمیوں میں ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ بہر حال مقامی لوگوں میں اس حوالے سے کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ 

کرگل سے گذشتہ روز واپس لوٹے ایک شخص نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کرگل علاقے سے بڑے پیمانے جنگی ساز و سامان، بھاری گاڑیاں اور فوجیوں کی بڑی تعداد لیہ کی جانب منتقل ہورہی ہے۔ ان واقعات اور سرکاری احکامات سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سرحد پر صورتحال سنبھلنے کے بجائے مزید کشیدہ ہے اور زمینی سطح پر زور شور سے جنگ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ روز قوم سے اپنے خطاب میں چین کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ بھارت کی طرف آنکھ اٹھانے والوں کو سخت جواب دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ بھارت کی سرزمین پر نہ تو کوئی داخل ہوا اور نہ ہی اس کی ایک انچ زمین کسی کے قبضے میں ہے۔ لیکن دفاعی تجزیہ نگار اور ماہرین باربار یہ لکھتے اور کہتے رہے ہیں کہ ایل اے سی پر بھارتی فوج جن علاقوں پر پہلے گشت کیا کرتی تھی اس میں سے کئی علاقوں تک اب اس کی رسائی محدود ہوگئی ہے اور وادی گلوان میں چینی فوج نے اپنے خیمے نصب کر لیے ہیں۔

بھارت انہیں علاقوں سے چینی فوج کو پیچھے جانے کے لیے کہہ رہا ہے۔ لیکن چین کا کہنا ہے کہ سرحد پر تمام طرح کی موجودہ کشیدگی کے لیے بھارت ذمہ دار ہے جس نے کئی چینی علاقوں میں دراندازی کی کوششیں کیں اور متنازعہ علاقوں میں تعمیرات کا کام شروع کیا۔

اس دوران جہاز رانی اور ٹرانسپورٹ کے مرکزی وزیر نتن گڈکری نے کہا ہے کہ مختلف بندگاہوں پر چین سے آنے والا جو سامان کسٹم کی وجہ سے پھنسا ہوا ہے اسے فوری طور پر چھوڑا جائے ورنہ اس سے چین کا نہیں بلکہ نقصان بھارت کا ہوگا۔ سرحد پر کشیدگی کے سبب بھارت میں چینی مصنوعات کی بائیکاٹ کی مہم چلی ہے جس کی وجہ سے بہت سی کمپنیوں نے جو سامان پہلے ہی آرڈر کیا تھا وہ بھارتی بندر گاہوں سے ریلیز نہیں کیا گیا ہے۔

نتن گڈکری کا کہنا تھا کہ جس سامان کی قیمت بھارتی کمپنیاں پہلے ہی ادا کر چکی ہیں ان کے روکنے سے بھارت کا ہی نقصان ہوگا۔ ''ہم زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کہ درآمدات کے لیے ڈیوٹی میں اضافہ کر دیں لیکن اہم ساز و سامان کو روک نہیں سکتے۔ اس سے کام رک جائے گا، نقصان بھارت کا ہوگا۔'' 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں