1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا انعام الرحیم نے طاقتور حلقوں کو ناراض کیا؟

عبدالستار، اسلام آباد
2 جنوری 2020

گمشدہ افراد کے لیے کام کرنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے گھر والوں کا دعوی ہے کہ سابق فوجی افسر کو ملک کے طاقتور اداروں کی ناراضی کے باعث اٹھایا گیا اور یہ کہ ان پر لگائے جانے والے تمام تر الزامات بے بنیاد ہیں۔

https://p.dw.com/p/3VbuV
Pakistan Oberster Gerichtshof
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

وکالت سے وابستہ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کئی برسوں سے نہ صرف گمشدہ افراد کے لیے کام کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے وقتا فوقتا ایسی آئینی درخواستیں بھی مختلف عدالتوں میں جمع کرائی ہیں، جن کو ملک کے کئی حلقے فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سمجھتے ہیں۔

کرنل انعام الرحیم کی گمشدگی کے حوالے سے آج جمعرات کے دن لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کو وزارت دفاع کے طرف سے بتایا گیا کہ وہ ان کی تحویل میں ہیں۔ کرنل انعام کو سولہ دسمبر کی رات بارہ بجکر تیس منٹ پر راولپنڈی میں ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا۔

انعام الرحیم کے بیٹے حسنین انعام کا دعوی ہے کہ وزارت دفاع کا موقف غلط ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "وزارت دفاع کا دعوی ہے کہ انہیں سیکرٹ ایکٹ کے تحت اٹھایا گیا ہے لیکن میرے والد پر سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ہی نہیں ہوتا کیونکہ انہیں ریٹائرڈ ہوئے دس برس سے بھی زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور ان کی آرمی میں فرائض کی نوعیت بھی ایسی تھی کہ اس ایکٹ کا ان پر اطلاق نہیں ہو سکتا۔"

حسنین کے خیال میں ان کے والد کو اٹھائے جانے کے سیاسی اسباب ہیں، ’’جنرل باجوہ کی ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جب سماعت ہو رہی تھی تو میرے والد نے چیف جسٹس کو آرمی ایکٹ کی ایک کاپی فراہم کی تھی، جس پر کچھ طاقت ور حلقے ناراض ہو گئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ماضی میں جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف ایک پٹیشن جمع کرائی تھی۔ وہ مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے میں بھی گواہ تھے اور انہوں نے یہ کہا تھا کہ مشرف نے یہ فیصلہ خود کیا تھا۔ اس کے علاوہ میرے والد نے جنرل راحیل شریف اور جنرل عاصم سلیم باجود کے خلاف بھی ایک درخواست دی ہوئی تھی۔ ان پر دباؤ تھا کہ وہ یہ درخواستیں واپس لیں اور جب انہوں نے انکار کیا تو ان کو اٹھا لیا گیا۔‘‘

قانونی ماہرین کے خیال میں سابق فوجی اہلکار کا اس طرح سے اٹھایا جانا انسانی حقوق اور گمشدہ افراد کے حق میں کام کرنے والے کارکنان کے لیے ایک پیغام ہے۔ معروف قانون دان طارق اسد ایڈوکیٹ کا کہنا ہے، جس طریقے سے انہیں اٹھایا گیا، قانون کی زبان میں اسے اغواء کہتے ہیں، "انعام الرحیم کو اٹھا کر یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ایسے کام نہ کرو جو کچھ طاقتور حلقوں کے لیے نا قابل قبول ہیں۔ انعام نے بہت ساری درخواستیں دی ہوئی تھی، جس سے طاقت ور حلقے ناراض ہوئے۔ ان کے اس طرح سے اٹھائے جانے پر انسانی حقوق کے کارکنان کو سخت پریشانی ہے۔ اب وزارت دفاع نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ ان کی حراست میں ہیں لیکن ابھی تک سارے الزامات بیان نہیں کئے گئے ہیں۔"

ناقدین کے خیال میں پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے صرف سیاسی، مذہبی، عسکری اور قوم پرست جماعتوں کے کارکنان کو اٹھایا جاتا تھا اب یہ سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ حال ہی میں انسانی حقوق کے نامور کارکن ادریس خٹک کو بھی جبری طور پر گمشدہ کیا گیا ہے اور ان کا ابھی تک کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔

حقوق انسانی کمیشن برائے پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ حکومت اس مسئلے پر بالکل بے بس نظر آتی ہے، "کیونکہ لوگوں کو اٹھانے میں خفیہ ایجنسیوں کے لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ لہذا حکومت ان کے خلاف کچھ نہیں کر پاتی۔ حال ہی میں نے ایک وزیر سے گمشدہ لوگوں کے مسئلے پر بات کرنا چاہی، تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اس مسئلے پر پھر کبھی بات کریں گے۔"

مہدی حسن کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کو اس مسئلے پر بہت تشویش ہے، "ہماری جیسی تنظمیں اس مسئلے پر مسلسل آواز اٹھارہی ہیں لیکن ہمارے احتجاج پر حکومتیں یہ کرتی ہیں کہ بس بتا دیتے ہیں کہ فلاں فلاں شخص کو اس وجہ سے اٹھایا گیا ہے۔ حکومت کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں اس طرح انسانوں کو اٹھانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔"

اس بارے میں حکومتی موقف حاصل کرنے کے لیے ڈی ڈبلیو نے حکومت کے کئی وزراء سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں