1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا امریکی اور پاکستانی ڈرون حملوں میں فرق ہے؟

شکور رحیم اسلام آباد7 ستمبر 2015

گزشتہ گیارہ سالوں سے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت کرنے والے پاکستان نے اب خود ان حملوں کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان کو ڈرون حملوں کے جواب میں کس قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

https://p.dw.com/p/1GSIS
تصویر: picture-alliance/AP/Air Force/L. Pratt

پاکستانی عدالتوں میں امریکی ڈرون حملوں سے متاثرہ قبائلیوں کے مقدمات کی پیروی کرنے والے بیرسٹر شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ امریکی اور پاکستانی ڈرون حملوں کے اثرات میں فرق ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا’’ امریکی ڈرون حملے بین الاقوامی اور پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ ہمارے پاس شواہد موجود ہیں کہ ان حملوں میں بہت سے عام شہری بھی مارے گئے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو انہوں نے ابھی پہلا حملہ کیا ہے اور یہ آپریشن ضرب عضب کے تحت کیا گیا ہے۔ اس لیے ہمارے خیال میں ایک ڈرون حملے پر ہی نہیں بلکہ پورے آپریشن ضرب عضب کی شفافیت پر سوال اٹھتا ہے کہ اس میں کتنے لوگ مارے گئے اور وہ کون تھے؟‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی فوج کی جانب سے کیے جانے والے مزید ڈرون حملوں میں اگرعام لوگوں کے مارے جانے کے شواہد ملے تو’’ پھر ہم فوج کو اس سلسلے کو بند کرنے کا کہیں گے اور اگر وہ نہ مانے تو پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔‘‘

USA Drohne der US-Luftwaffe Global Hawk
تصویر: picture-alliance/AP

خیال رہے کہ پاکستانی فوج نے گزشتہ جون میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا تھا، جس میں حکومت نے ڈیڑھ ہزار سے زائد خطرناک دہشتگردوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے۔ جبکہ بڑی تعداد میں مبینہ دہشتگردوں کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ تاہم اس آپریشن کے بارے میں اب تک سامنے آنے والی زیادہ تر معلومات فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یا فوجی ذرائع سے ہی سامنے آئی ہیں۔ اس لیے بعض حلقے ان اعداد وشمار کی درستگی اور فوجی کارروائی کی شفافیت کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔

دوسری جانب دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئیر (ر) اسد منیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کافی عرصے سے امریکا پر ڈرون ٹیکنالوجی کی فراہمی کے لیے زور دیتا آیا ہے تاہم اب اس کی جانب سے مقامی سطح پر ڈرون کی تیاری ایک بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کا مؤثر اور باہدف استعمال دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے لیے بہت مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ڈرون کا استعمال ملکی دفاع اور دہشتگردی کے خلاف لڑائی میں خود انحصاری کی طرف بھی ایک قدم ہے۔" ایک سوال کے جواب میں اسد منیر نے کہا کہ ان کے خیال میں اب امریکی ڈرون حملوں میں مزید کمی آئے گی اور پاکستانی فوج جو اپنے علاقوں کو اچھی طرح جانتی ہے وہ اپنے اہداف کو درست انداز میں نشانہ بنائے گی، جس سے سویلین آبادی کو کم سے کم نقصان ہو گا۔

واضح رہے کہ اس ماہ یعنی یکم ستمبر کو امریکی ڈرون حملے میں شمالی وزیرستان کے علاقے شوال میں پانچ شدت پسند مارے گئے تھے۔ یہ وہ علاقہ ہے، جہاں پاکستانی فوجی نے گزشتہ ماہ شدت پسندوں کے خلاف زمینی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیاتھا۔ تاہم پاکستانی دفتر خارجہ نے اس امریکی ڈرون حملے کے بعد حسب روایت ایک مذمتی بیان جاری کیا تھا۔

اس سے قبل پاکستانی فوج کے محمکہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر )کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے پیر کے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے مختصر پیغام میں بتایا تھا کہ پاکستان کے پہلے ڈرون طیارے ’براق‘ نے وادی شوال میں دہشت گردوں کے ایک احاطے کو نشانہ بنایا ہے۔ میجر جنرل عاصم باجوہ کے مطابق اس حملے میں تین اہم دہشت گرد ہلاک ہوئے تاہم ہلاک کیے گئے دہشتگردوں کے نام یا کسی بھی قسم کے کوائف نہیں بتائے گئے۔