1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا امریکا کو عراق میں مزید کردار ادا کرنا چاہیے؟

کشور مصطفیٰ15 جون 2015

کہنہ مشق اور نہایت تجربہ کار امریکی فوجی جنرل مارٹن ڈیمپسی عراق میں داعش کے قدم اکھڑنے کی علامات نہیں دیکھ رہے ہیں اور نہ ہی وہ عراق میں امریکی فوج کی دوبارہ تعیناتی کا کوئی جواز دیکھتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FhME
تصویر: Reuters

جنرل ڈیمپسی اکتالیس برسوں سے امریکی فوج کے لیے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما کے فوجی مشیر بننے سے پہلے بھی وہ امریکا کے محکمہ دفاع کے ایک اہم اور چوٹی کے اہلکار رہ چُکے ہیں۔ اُن کا فوجی کیرئیر کئی جنگوں کے تجربے سے تشکیل پایا ہے۔ جنرل ڈیمپسی اپنے تجربات کی بنا پر عراق کی موجودہ صورتحال کو نہایت مایوس کُن قرار دیتے ہوئے اس شورش زدہ ریاست میں مستقبل قریب میں کسی بہتری کی امید وابستہ نہیں کیے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق میں عسکریت پسند جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف پائیدار فتح کی راہ اب بھی ہموار نہیں ہوئی ہے تاہم ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک بار پھر عراق میں امریکی فوجیوں کو بھیجنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

صبر سے کام لیا جائے

جنرل ڈیمپسی کا ماننا ہے کہ عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کسی بڑی کامیابی کی کوئی خاص امید نہیں پائی جاتی اور اس معاملے میں کوئی نئی حکمت عملی وضع کرنا غلط ہوگا۔ انہوں نے عراق کے سلسلے میں صبر و تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر نیپلز میں امریکی فوجیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے جنرل ڈیمپسی کا کہنا تھا،’’عراقیوں کو مزید وقت دیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے داخلی مسائل اور تقسیم ختم کر کے اپنی جنگ خود لڑنے کے متحمل ہو سکیں۔ عراقیوں کے اندر اسلامک اسٹیٹ کے خلاف مزاحمت پیدا ہونا ضروری ہے، تب ہی وہ اس گروپ کا مقابلہ کرتے ہوئے کوئی کامیابی حاصل کر سکیں گے۔ عراق میں پائیدار کامیابی کسی فوجی قوت کے استعمال سےکہیں زیادہ موثر ثابت ہوگی۔ اس کے لیے پڑوسیوں کی حمایت والے ایک متحد عراق کی ضروت ہے‘‘۔

US General Martin Dempsey im Irak
عراق میں امریکی فوج کی قیادت کرنے والے جنرل مارٹن ڈیمپسیتصویر: Reuters/Stewart

پلان بی

جنرل ڈیمپسی اگرچہ اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر عراق میں اسلامک اسٹیٹ کو پسپا کرنے کی مہم کی ذمہ داری امریکی فوجیوں کو سونپ دی جائے تو ممکنہ طور پر داعش شکست خوردہ ہو گی اور یہ عمل تیز رفتار بھی ہوگا تاہم اس میں امریکی مرد اور خواتین فوجیوں کی ایک بڑی تعداد میں جانوں کا ضیائع ہو سکتا ہے۔ جنرل ڈیمپسی کا کہنا تھا،’’ شاید ISIL عراق سے چلی جائے، ممکنہ طور پر اسے فوجی شکست کا سامنا ہو لیکن اب سے دو سال بعد کوئی ایک نیا عسکری گروپ، ایک نئے نام اور نظریے کے ساتھ وجود میں آجائے گا اور ہم پھر اُسی مقام پر کھڑے ہوں گے۔ اس جنگ کو ہمارے اتحادی پارٹنرز اور خود عراقیوں کو لڑنا ہوگا۔ یہ بنیادی مفروضہ ہے اگر اس مفروضے میں کوئی تبدیلی آئی تو میں ’پلان بی‘ پر کام کرنے کو ترجیح دوں گا‘‘۔

US General Martin Dempsey im Irak
عراق کو اب خود اس چیلنج کا سامنا کرنا چاہیے: جنرل ڈیمپسیتصویر: Reuters/Stewart

جنرل ڈیمپسی کا کیرئیر

جنرل ڈیمپسی کا کیرئیر چار عشروں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ڈیمپسی ریاض میں سعودی داخلہ دفاعی امور کے مشیر کی حیثیت سے وہاں تعینات رہے۔ 2003 ء اور 2004 ء کے درمیان عراق کی جنگ میں جنرل ڈیمپسی نے امریکا کی فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کی قیادت کی۔ 2005 ء تا 2007 ء وہ بغداد میں امریکی فوجی تربیت کے مشن کی کمانڈ سنبھالے ہوئے تھے۔

2008 ء میں وہ مشرق وسطیٰ کے وسیع تر علاقے میں امریکی فوج کی سنٹرل کمانڈ کے قائم مقام کمانڈر رہے اور بحیثیت جوائنٹ چیفس چیئرمین جنرل ڈیمپسی امریکی صدر باراک اوباما اور اُن کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے چیف ملٹری ایڈوائزر یا مُشیر بن گئے۔

جنرل ڈیمپسی کے ذہن پر متعدد فوجی محاذوں پر اپنے فوجیوں کو لگنے والی ضرب اور اُن کی ہلاکتوں کے نقوش بھی موجود ہیں۔ پینٹاگون میں اُن کے دفتر کی میز پر ایک ڈبہ پڑا رہتا ہے جس پر کم از کم اُن 100 امریکی فوجیوں کے کارڈز جمع ہیں، جو جنرل ڈیمپسی کی کمان میں عراق میں 2003ء تا 2004 ء دوران جنگ ہلاک ہوئے تھے۔