1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا اسٹیبلشمنٹ سندھ میں متحدہ کو متحد کرنے میں کامیاب ہوگی؟

3 جنوری 2023

کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے قبل سیاسی منظر نامے میں غیر معمولی ہلچل دکھائی دے رہی ہے۔ کئی ٹکڑوں میں تقسیم ایم کیو ایم کو متحد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مگر اس میں الطاف حسین یا آفاق احمد کا کوئی کردار نظر نہیں آتا

https://p.dw.com/p/4LgPi
Fractions of MQM Pakistan
تصویر: PSP & MQM

گزشتہ تمام ضمنی انتخابات میں پے در پے شکست کے باعث عوامی سطح پر کئی ماہ سے یہ مطالبہ سنائی دے رہا تھا کہ ایم کیو ایم کے دھڑوں کو یکجا ہو کر مہاجر سیاست کرنا چاہیے۔ آفاق احمد اور ڈاکٹر فاروق ستار اس کا کئی مرتبہ کھل کر اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں لیکن شاید مقتدر حلقوں میں سندھ خصوصاﹰ کراچی کی سیاست میں توازن پیدا کرنے کے لیے تحریک انصاف کو ایم کیو ایم کا متبادل سمجھا جارہا تھا۔

کامران ٹیسوری کی بطور گورنر سندھ تعیناتی

مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد کامران ٹیسوری کی ایم کیو ایم کی جانب سے بطور گورنر سندھ تعیناتی ایم کیو ایم کے دھڑوں میں اتحاد کی پہلی اینٹ تھی۔ کامران ٹیسوری کو ایم کیو ایم کے حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی تنظیم سے عیلحدگی کا سہرا بھی کامران ٹیسوری کے سر ہی جاتا ہے مگر کہا جارہا ہے کہ  نادیدہ قوتوں نے انہیں اس ذمہ داری کے ساتھ میدان میں اتارا ہے کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان،  ڈاکٹر فاروق ستار کی تنظیم بحالی کمیٹی اور مصطفٰی کمال کی پاک سرزمین پارٹی کو ایک ساتھ بٹھائیں گے۔

الیکشن سے راہ فرار ہے

ایم کیو ایم کی جانب سے پیپلز پارٹی پر حلقہ بندیوں میں جانبداری کا الزام عائد کیے جانے پر پی پی کراچی کے صدر اور صوبائی وزیر سعید غنی کہتے ہیں کہ حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن کرتا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی تمام حلقہ بندیاں یکساں آبادی کی بنیادی پر نہیں کی گئیں۔

ایم کیو ایم سے اتحاد میں شمولیت کے وقت کیے گئے وعدوں سے متعلق سعید غنی نے کہا، '' ایم کیو ایم وعدوں پر عملدرآمد میں پک اینڈ چوز چاہتی ہے۔ وہ حلقہ بندیوں کے لیے اسلام آباد جیسا معاملہ چاہتے ہیں جو غلط ہے۔ اسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسترد کر دیا ہے۔ یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے، انہیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ الیکشن سے راہ فرار ہے۔‘‘

کراچی پر سیاست کی جا رہی ہے، فہیم الزماں

اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی بات مضحکہ خیز ہے، وسیم اختر

 ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینئر اور سابق میئر کراچی وسیم اختر نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم الیکشن سے نہیں بھاگ رہی لیکن پہلے مردم شماری میں کراچی کو آدھا شمار کیا گیا، پھر حلقہ بندیوں میں دھاندلی کی گئی اور اس پر آپ الیکشن چاہتے ہیں۔

ایم کیو ایم کے دھڑوں کے متحدہ ہونے سے متعلق وسیم اختر نے کہا، ''یہ تو ہماری پہلے دن سے خواہش ہے کہ جو لوگ ناراض ہیں وہ واپس آجائیں۔ البتہ تحریک انصاف کی جانب سے اس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی بات مضحکہ خیز ہے، جو جماعت خود اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر حکومت میں آئی اور ایم کیو ایم کی 14 سیٹیں چوری کرکے انہیں دی گئیں۔‘‘ انہوں نے  مزید کہا مہاجر ووٹ بینک پہلے کی طرح موجود ہے لیکن ووٹرز ناراض ہیں۔ ہمیں دوسری جماعتوں کی طرح کام کرنے نہیں دیا جا رہا، ہمارے دفاتر بند ہیں مگر ہم اس ماحول میں بھی سیاست کر رہے ہیں۔‘‘

ایم کیو ایم سے بات گورنر سندھ کے ذریعے ہوئی ہے، مصطفٰی کمال

پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین مصطفٰی کمال نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری سے دو ملاقاتیں ہوئی ہیں، ''ایک مرتبہ ہم گورنر ہاؤس گئے تھے اور دوسری مرتبہ گورنر ہمارے دفتر آئے تھے۔ گورنر ایم کیو ایم کے نامزد کردہ ہیں لہذا صرف ان سے ہی بات ہوئی ہے باقی ایم کیو ایم سے کوئی بلواسطہ یا بلاوسطہ بات نہیں ہوئی۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت جو مسائل ہیں ان کا حل ذاتی انا اور سیاست کو پیچھے چھوڑنے اور مل کر جدوجہد کرنے سے ممکن ہے۔ لوگ آج جن مسائل کا شکار ہیں ایسے میں وہ اختلافات کو کم دیکھنا چاہتے ہیں، ''پی ایس پی نے اپنے قیام سے لے کر آج تک ایسے فیصلے کیے ہیں جنہیں وقت اور حالات نے درست ثابت کیا ہے۔ آج اس شہر میں اگر امن ہے تو ہماری پارٹی بننے کی وجہ سے، اس سے قبل روزانہ درجن بھر لوگ قتل ہوتے تھے۔ لاشیں پرچم میں لپیٹ کر شہدا  قبرستان جاتی تھیں۔ نوجوان جیلوں میں جا رہے تھے، لاپتہ ہورہے تھے، آج کوئی لاپتہ نہیں ہو رہا بلکہ ہم نے 500 لاپتہ نوجوانوں کو بازیاب کرایا ہے۔ اس شہر میں مہاجر سندھ اور بلوچوں کی لڑائی نہیں ہو رہی۔ اس شہر کے امن میں ہمارا حصہ ہے اور ہمیں اسے مزید آگے لے جانا چاہتے ہیں‘‘۔

مصطفٰی کمال کہتے ہیں کہ جب گورنر سندھ نے ملاقات میں کہا کہ شہر کے لیے مل جل کر کام کرنا چاہیے، ''مجھے ایک لمحے کے لیے بھی تردد نہیں ہوا، میں پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ اس شہر  کے لیے کوئی کچھ کرنا چاہے تو میں اس کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ ہم پیپلز پارٹی کے خلاف کوئی محاذ نہیں بنا رہے بلکہ اگر وہ شہر  کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے  پاس تجربہ ہے ہم ان کا ساتھ دیں گے۔

 

پی ٹی آئی کا فوج کی نگرانی میں انتخابات کا مطالبہ

اپریل 2022 ء سے مسلسل فوجی قیادت کو ہدف تنقید بنانے والی تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات فوج کی نگرانی میں ہونے چاہییں۔ سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے شہر کو تباہ کیا ہے اور یہ دونوں جماعتیں الیکشن سے فرار کے بہانے تراش رہی ہیں، "ایم کیو ایم کے دھڑوں کو اکھٹا کر کے  شہر میں پھر خون کی ہولی کھیلنے کی تیاری کی جا رہی ہے لیکن یہ کچھ بھی کر لیں عوام عمران خان کے ساتھ ہے۔"

ہمارے خلاف قبل از انتخابات دھاندلی ہو چکی ہے، فاروق ستار

متحد ایم کیو ایم میں کنٹرولنگ پاور بھی ایک مسئلہ

ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے دھڑوں کو اکٹھا کرنا صرف سیاسی بات چیت سے ممکن دکھائی نہیں دیتا کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان میں افرادی قوت کا سرچشمہ سینیئر ڈپٹی کنوینیئر عامر خان اور پاک سرزمین پارٹی میں اصل طاقت پارٹی صدر انیس قائم خانی کے پاس ہے۔ لاپتہ افراد کی اکثریت بھی انیس قائم خانی کی کوششوں سے ہی گھروں کو واپس آئی ہے۔ 

''ایم کیو ایم کا کنٹرول ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس رہا ہے" پروفیسر توصیف احمدِ،

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے تجزیہ کار پروفیسر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کو بنایا بھی اسٹیبلشمنٹ نے تھا اور ہمیشہ سے اس سیاسی جماعت کا کنٹرول انہیں کے پاس رہا ہے۔ مگر جب ایم کیو ایم ان کے ہاتھوں سے نکل گئی تو کراچی کا امن برباد ہوا، ''الطاف حسین کے پاکستان کے خلاف بیان کے بعد اس جماعت کی سرگرمیاں محدود ہو گئیں تھیں مگر اب اسٹیبلشمنٹ کو اس کی ضروت ہے لہذا تمام دھڑوں کو یکجا کیا جا رہا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک یہ قوتیں چاہیں گی ان کا اتحاد برقرار رہے گا، ''اس بارے میں دو رائے نہیں ہے کہ دراصل ایم کیو ایم کو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی قوت کو لگام دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘‘

پیپلز پارٹی ایم کیو ایم اتحاد کی تاریخ

ماضی میں سندھ کے شہری علاقوں  کی منظم جماعت ایم کیو ایم کئی مرتبہ پیپلز پارٹی کی اتحادی رہی مگر ہر مرتبہ پیپلز پارٹی کی جانب سے وعدوں اور معاہدوں کی خلاف ورزی اور ایم کیو ایم پر مبینہ طور پر مالی فوائد حل کرنے کے الزامات کے بعد یہ اتحاد ختم ہوا۔

ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے درمیان پہلا معاہدہ بے نظیر بھٹو نے 1988ء میں کیا۔ 1992ء کے فوجی آپریشن کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف سے اتحاد ختم ہوا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان پھر سیاسی دوریوں کا آغاز ہو گیا۔ 1997ء میں نواز شریف سے اتحاد کا خاتمہ ایم کیو ایم پر حکیم سعید کے قتل کے الزام پر ہوا۔

سال 2002ء سے سال 2007ء تک جنرل پرویز مشرف سے اتحاد کو ایم کیو ایم کا سنہرا دور دور کہا جا سکتا ہے۔ سال 2008 میں پیپلز پارٹی سے پھر اتحاد ہوا اس مرتبہ پیپلز پارٹی نے سابق وزیر داخلہ مرحوم رحمان ملک کے ذریعے براہ راست الطاف حسین سے لندن میں ڈیل کی اور جو بھی فیصلہ ہوتا تھا، اسے ایم کیو ایم کے قائدین کو تسلیم کرنا پڑتا تھا۔ اب 2022ء میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمہ پر ایم کیو ایم اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا حصہ بنی۔

  تجزیہ کاروں کے مطابق مقتدر قوتیں ایم کیو ایم کو دوبارہ متحد کرکے تحریک انصاف کو شہر میں دی گئی اسپیس کو کم کرنے کے ساتھ پیپلز پارٹی کو بھی محدود کرنے کے لیے ایک مضبوط حریف تیار کرنا چاہتی ہیں جو بوقت ضرورت پیپلز پارٹی کو ٹکر دے سکے البتہ تحریک انصاف کی شہر مخصوصا پشتونوں میں مقبولیت کم کرنے کے لیے عوامی نیشنل پارٹی کی بحالی کا بھی امکان ہے۔