1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کيا آپ مہاجر کيمپوں ميں بے مقصد زندگی گزارنے يورپ آئے تھے‘

عاصم سلیم
10 جولائی 2018

ڈھائی برس يورپ ميں گزارنے اور تين مختلف ملکوں ميں پناہ کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد ڈسکہ، سيالکوٹ سے تعلق رکھنے والا تارک وطن شاہد علی اس نتيجے پر پہنچا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس جا کر اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرے گا۔

https://p.dw.com/p/319Bf
Afghanische Flüchtlinge in Serbien
تصویر: Getty Images/P.Crom

تيئیس سلہ شاہد علی نے حال ہی ميں يہ فيصلہ کيا کہ وہ اپنے آبائی علاقے جا کر اپنی ’بيچلر آف سائنس‘ کی تعليم مکمل کرے گا اور وہيں کوئی نوکری تلاش کر کے ايک روشن مستقبل تعمير کرنے کی کوشش کرے گا۔ شاہد نے فرانسيسی دارالحکومت پيرس سے پچھلے ہفتے لاہور کی ٹکٹ کرائی اور اب وہ پاکستان ميں ہے۔ پاکستان روانگی سے قبل ڈی ڈبليو سے خصوصی طور پر گفتگو کرتے ہوئے اس نے بتايا کہ بہتر مستقبل کی تلاش ميں اس نے يورپ ميں در بدر کی ٹھوکريں کھائيں اور بالآخر اس نتيجے پر پہنچا کہ کسی مہاجر کيمپ ميں بے مقصد، بے معنی اور بے عزتی والی زندگی گزارنے سے اپنے ديس ميں رہنا اور وہيں آگے بڑھنے کی جستجو کرنا بہتر ہے۔

شاہد ترکی کے راستے يونان جنوری سن 2016 ميں پہنچا تھا۔ اس وقت چونکہ مہاجرين کا ترکی سے يورپی يونين کی جانب بہاؤ روکنے کے ليے ترکی اور يورپی يونين کے مابين کسی معاہدے پر بات چيت جاری تھی، نئے پہنچنے والے مہاجرين کو يونانی جزائر پر ہی رکھا جا رہا تھا۔ ليسبوس آمد پر شاہد کو حراست ميں لے ليا گيا۔ اس نے بتايا کہ اس وقت تک وہ اس قدر بے خبر تھا کہ حراست کے دوران اسے يہ پتہ چلا کہ  ترکی ملک بدری سے بچنے کے ليے وہ يونان ميں پناہ کی درخواست جمع کرا سکتا ہے۔ گو کہ شاہد کی منزل معاشی طور پر زيادہ مستحکم مغربی يورپی ممالک ہی تھے تاہم اس نے اپنے سفر کے جلد خاتمے سے بچنے کے ليے يونان ميں درخواست دے دی۔ وہ بتاتا ہے، ’’ماہ اگست ميں رمضان تھا اور اس وقت مجھے ايک دن اچانک انٹرويو کے ليے بلا ليا گيا۔ ميری تياری ٹھيک نہ تھی اور جيسے تيسے ميں نے جوابات دے ديے۔ پھر ايک ماہ بعد مجھے مطلع کيا گيا کہ ميری درخواست مسترد ہو چکی ہے۔‘‘

شاہد علی کے پاس رہائش کی اجازت اس سال اکتوبر ميں ختم ہو رہی تھی، اب اسے کوئی اميد نہ تھی۔ يورپ ميں ايک بہتر زندگی کا اس کا خواب بہت جلد اپنے ناکام اختتام کو پہنچنے کو تھا۔ شاہد کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح يونانی دارالحکومت ايتھنز پہنچ سکے کيونکہ ان دنوں وہاں مواقع مقابلتاً زيادہ ہوا کرتے تھے۔ پھر ايک دن مدد آن پہنچی۔ موريا نامی ديہات کی دو لڑکيوں نے شاہد کو اپنی گاڑی کی ڈکی ميں بٹھا کر ايتھنز پہنچا ديا۔ اس نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ’’ميں سولہ گھنٹوں تک گاڑی کی ڈکی ميں ہی چھپا رہا اور جب ايتھنز پہنچ کر ميں اس سے باہر نکلا، تو ميری ٹانگيں اکڑ چکی تھيں اور گھنٹوں تک مجھ ميں کھڑے ہونے تک کی سکت نہ تھی۔‘‘

وہاں سے شاہد کا سفر دوبارہ شروع ہوا۔ انسانوں کے ايک اسمگلر نے نو سو يورو کے عوض شاہد کو فرانس کا جعلی شاختی کارڈ فراہم کيا۔ افريقہ سے تعلق رکھنے والے اس اسمگلر نے شاہد کو اپنے ايک دوست کی ايجنسی سے ٹکٹ دلوايا اور پھر ہوائی اڈے تک چھوڑ کر آيا۔ ايتھنز ايئر پورٹ پر معمولی پوچھ گچھ کے بعد حيران کن طور پر شاہد کو پيرس جانے کی اجازت دے دی گئی۔ اسے ايسا لگا کہ شايد اس کی دال گل گئی ہے ليکن اميگريشن حکام نے دراصل چالاکی سے کام ليا تھا۔ پيرس آمد پر فوری طور پر اسے حراست ميں لے ليا گيا کيونکہ ايتھنز ميں حکام نے پيرس ايئر پورٹ کو اطلاع دے دی تھی کہ اس پرواز پر ايک مشکوک فرد سوار ہے۔

پاکستانی تارک وطن شاہد علی نے اگلا ايک ہفتہ پيرس کے اورلی ہوائی اڈے پر گزارا، جس دوران يونان سے اس کی ايک خير خواہ وکيل پيرس آئی اور اس نے شاہد کی قانونی کارروائی سنبھالی۔ بعد ازاں اسے پيرس ميں پناہ کی درخواست دينے کی اجازت دے دی گئی۔ شاہد اکتوبر سن 2017 تک پيرس ميں ہی رہا مگر وہاں بھی اس کی دال نہ گلی۔

پچھلے سال کے اواخر ميں شاہد علی اٹلی کے وسطی حصے فيرمو پہنچا۔ وہاں وہ جس مہاجر کيمپ ميں تھا، اس ميں تقريباً ايک سو ديگر پاکستانی بھی موجود تھے۔ وہيں شاہد کی آنکھيں کھليں، ’’ميں نے ديکھا کہ درجنوں پاکستانی بے مقصد زندگياں گزار رہے ہيں۔ وہ تين تين سال سے اسی مہاجر کيمپ ميں تھے اور بس کاغذی کارروائی ميں ان کا وقت گزر رہا تھا۔ ميں نے خود سے يہ سوال کيا کہ کيا يہی زندگی گزارنے ميں يورپ آيا تھا؟‘‘

سال رواں مارچ ميں شاہد علی واپس پيرس پہنچا۔ وہ يہ فيصلہ کر چکا تھا کہ اب اسے اپنے ملک جانا ہے اور وہيں کچھ کرنا ہے۔ شاہد نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ’’ميں پاکستان چھوڑنے سے پہلے گوجرانوالہ کی ايک يونيورسٹی سے چار سمسٹر مکمل کر چکا تھا۔ اب ميں وہاں جا کر اپنی تعليم مکمل کروں گا۔‘‘ شاہد کے بقول يورپ کے مختلف حصوں ميں بے مقصد زندگی گزارنے والے ہزارہا پاکستانيوں کو خود سے يہ سوال پوچھنا چاہيے کہ کيا وہ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر ايسی زندگی گزارنے يورپ آئے تھے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں