1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کووڈ ویکسین کمپنیاں فی سیکنڈ ایک ہزار ڈالر کما رہی ہیں

17 نومبر 2021

امیر ملکوں کو کووڈ ویکسین فروخت کرنے سے صرف تین کمپنیوں کو یومیہ 93.5 ملین ڈالر کی آمدن ہو رہی ہے۔ دوسری طرف غریب ملکوں میں صرف دو فیصد لوگوں کو ہی ویکسین کی دونوں خوراکیں مل سکی ہیں۔

https://p.dw.com/p/435eN
Deutschland Stuttgart Corona-Impfung
تصویر: AFP

کووڈ ویکسین کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے مہم چلانے والی تنظیموں کے اتحاد پیپلز ویکسین الائنس (پی وی اے) نے اپنے تازہ ترین تجزیے میں بتایا ہے کہ کووڈ انیس کا ویکسین تیار کرنے والی صرف تین کمپنیاں فائزر، بایو این ٹیک اورموڈرنا اپنی ویکسین امیر ملکوں کو فروخت کرکے مجموعی طورپر  فی منٹ 65 ہزار ڈالر کمارہی ہیں جبکہ دنیا کے غریب ترین ملکوں میں بیشتر افراد اب تک ویکسین سے محروم ہیں۔

سرکاری پیسے سے منافع

پی وی اے کے مطابق یہ تجزیہ کمپنیوں کی طرف سے جاری کردہ رپورٹوں پر مبنی ہے۔ پی وی اے کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو اربوں ڈالر کی سرکاری فنڈنگ ملی ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ویکسین تیار کرنے کا فارمولہ، تکنیک اور دیگر معلومات غریب ملکوں کی کمپنیوں کو دینے سے انکار کردیا ہے۔ حالانکہ" غریب ملکوں کے ساتھ تعاون کرکے لاکھوں جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔"

پی وی اے کے اندازے کے مطابق مذکورہ تینوں کمپنیاں اس سال  34 ارب ڈالر کا منافع کمائیں گی جوکہ فی سیکنڈ 1000ڈالر، فی منٹ 65 ہزار ڈالر اور یومیہ 93.5 ملین ڈالر کے قریب بنتا ہے۔

پی وی اے افریقہ اور افریقن الائنس کی کوارڈینیٹر مازا صیوم کہتی ہیں،" یہ انتہائی شرمناک ہے کہ صرف چند ایک کمپنیاں ہر گھنٹے لاکھوں ڈالر منافع کما رہی ہیں جبکہ کم آمدن والے ملکوں کے صرف دو فیصد لوگوں کو ہی پوری طرح ویکسین میسر ہوسکی ہے۔"

انہوں نے کہا، "فائزر، بایو این ٹیک اور موڈرنا  نے اپنی اجارہ داری کا استعمال کرتے ہوئے دولت مند حکومتوں سے انتہائی منفعت بخش معاہدے کیے اور کم آمدنی والے ملکوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا۔"

پی وی اے کا کہنا ہے کہ فائزر اور بایو این ٹیک نے اپنی مجموعی سپلائی کے ایک فیصد سے بھی کم جبکہ موڈرنا نے صرف 0.2 فیصد ویکسین کم آمدن والے ملکوں کو سپلائی کیا۔

کم آمدن والے 98 فیصد افراد کو ابھی تک ویکسین کے دونوں ڈوز نہیں لگائے جاسکے ہیں۔

Äthiopien Covid-19 Impfkampagne in DireDawa
تصویر: Mesay Tekelu/DW

کچھ استشنیٰ بھی ہے

 دو کمپنیوں آسٹرازینکا اور جانسن اینڈ جانسن کا رویہ تاہم مذکورہ تینوں کمپنیوں سے مختلف رہا۔ ان دونوں کمپنیوں نے غیر منافع کی بنیاد پر اپنے ویکسین فراہم کیے۔ حالانکہ ایسی خبریں ہیں کہ یہ کمپنیاں بھی اب منافع کے بغیر ویکسین فروخت کرنے کی پالیسی ترک کرنے پر غور کر رہی ہیں۔

پی وی اے کا کہنا ہے کہ 8ارب ڈالر سے بھی زیادہ سرکاری فنڈ حاصل کرنے کے باوجود فائزر، بایو این ٹیک اور  موڈرنا  نے ویکسین ٹیکنالوجی کم اور درمیانی آمدنی والے ملکوں کو منتقل کرنے کی عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کی درخواست ٹھکرا دی جبکہ ٹیکنالوجی منتقل کرنے سے عالمی سپلائی میں اضافہ اور قیمتوں میں کمی ہوسکتی تھی جس سے لاکھوں زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں۔

بھارت اور جنوبی افریقہ کی قیادت میں سو سے زیادہ ترقی پذیر اور غریب ملکوں نے مطالبہ کیا تھا کہ کووڈ ویکسین کو پیٹنٹ ضابطوں سے آزاد کیا جائے تاکہ تمام ملک اپنی ضرورت کے لحاظ سے ویکسین تیار کرسکیں۔ اس مطالبے کی سب سے شدید مخالفت جرمنی اور برطانیہ نے کی۔

پی وی اے ایک طویل عرصے سے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ ویکسین کوپیٹنٹ سے آزاد ہونا چاہئے۔ اس اتحاد میں آکسفیم، یو این ایڈس اور افریقن الائنس سمیت تقریباً80 اراکین شامل ہیں۔

Indien Corona-Pandemie | 1 Milliarde Impfdosen verabreicht
تصویر: Manjunath Kiran/AFP

خطرہ برقرار ہے

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں کورونا کے جتنے مریض ہیں ان میں سے 99.5 فیصد ڈیلٹا ویرینٹ سے متاثر ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے اس قسم نے بقیہ تمام اقسام کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جنوبی امریکا ہی ایسا خطہ ہے جہاں گاما، لیمڈا اور مو ویرینٹ کے زیادہ کیسز موجود ہیں۔

عالمی صحت تنظیم نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یورپ اور وسطی ایشیا میں اگلے برس فروری تک پانچ لاکھ لوگوں کی موت ہوسکتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے یورپی ڈائریکٹر نے کہا کہ یورپ اور وسطی ایشیا ایک بار پھر کووڈ انیس کا مرکز بن گئے ہیں اور یکم فروری تک مزید لاکھوں افراد کی موت ہوسکتی ہے۔

ج ا/ ص ز (اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں