1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوریا کی جنگ کے 60 سال مکمل

25 جون 2010

60 برس قبل آج ہی کے دن یعنی 25 جون 1950ء کی صبح شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کر دیا تھا۔ تین برس تک لڑی جانے والی اس جنگ کے نتیجے میں فوجیوں اور شہریوں سمیت کئی ملین افراد ہلاک ہوئے۔

https://p.dw.com/p/O3Vb
تصویر: AP

المیہ یہ ہے کہ اب جب کہ اس جنگ کی یادگاری تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں، دونوں ریاستوں کے درمیان ایک نئی جنگ کے خطرات اب بھی موجود ہیں۔

اس جنگ میں شرکت کرنے والے ایک سابق فوجی 78 سالہ جانگ اِن جُون بھی ہیں، جو 1950ء میں شروع ہونے والی اس جنگ میں لڑ چکے ہیں۔ اس کے باوجود کہ اس بات کو 60 برس گزر چکے ہیں، انہیں اس جنگ کی ہولناکیاں آج بھی یاد ہیں، "میں دیگر 20 فوجیوں کے ہمراہ لڑ رہا تھا۔ دشمن کی جانب سے جب حملہ کیا گیا، تو میرے علاوہ باقی تمام فوجی ہلاک ہو گئے۔ ہم لوگ ایک پہاڑی چوٹی پر لڑ رہے تھے، اس لئے ہلاک ہونے والوں کی لاشیں اس سے نیچے لڑھک رہی تھیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ مرنے والوں کے منہ پر پاؤں نہ رکھیں تاکہ ان کی بعد میں شناخت ممکن ہوسکے۔

کوریا کی جنگ کے ساٹھ سال مکمل ہونے پر جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں ہونے والی تقریبات میں 21 ممالک سے ہزاروں ایسے سابق فوجی بھی پہنچے ہیں، جو جنوبی کوریا کے تحفظ کے لئے لڑنے والی بین الاقوامی فوج میں شامل تھے اور اس جنگ میں براہ راست حصہ لے چکے ہیں۔

سیول میں موجود امریکی فوج کے یونگسان گیریزن میں ہونے والی ایک تقریب میں موجودہ اور سابق فوجیوں نے جنرل والٹن ایچ واکر کو خراج تحسین پیش کیا، جنہوں نے اس جنگ کے ابتدائی دنوں میں بوسان کے علاقے میں دفاعی افواج کی سربراہی کی تھی۔ جنرل واکر نے، جن کا بعد ازاں ایک کار حادثے میں انتقال ہوا، شمالی کوریا کی طرف سے کئے جانے والے حملے کے دفاع میں اپنے جوانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح دشمن کے سامنے ڈٹ جائیں۔

Raketen im Korea War Memorial Museum Flash-Galerie
المیہ یہ ہے کہ اب جب کہ اس جنگ کی یادگاری تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں، دونوں ریاستوں کے درمیان ایک نئی جنگ کے خطرات اب بھی موجود ہیں۔تصویر: AP

جانگ کا کہنا ہے کہ انہیں جنرل واکر کی باتیں اب بھی یاد ہیں، جو جنوبی کوریا کی مدد کے لئے افواج بھیجنے پر امریکہ اور دیگر اقوام کے بے حد شکر گزار تھے۔ تاہم جنرل کا خیال تھا کہ امریکیوں نے اس جنگ سے برسوں پہلے دی جانے والی ٹریننگ میں جنوبی کوریائی افواج کو اپنے دفاع کے لئے مناسب طور پر تیار نہیں کیا تھا۔

جانگ کا کہنا ہے، امریکی فوج نے ہمیں اپنے دفاع کے لئے مناسب توپ خانہ فراہم نہیں کیا۔ وہ یہ سب کام خود کرتے تھے۔ اگر انہوں نے ہمیں بہتر ہتھیار فراہم کئے ہوئے تو یہ عین ممکن تھا کہ نتائج بالکل ہی مختلف ہوتے۔"

اس جنگ میں شرکت کرنے والے بعض سابق امریکی فوجیوں نے بھی اس وقت کی واشنگٹن حکومت کے فیصلوں پر تنقید کی۔ 80 سالہ سابق امریکی فوجی ماریون رینکن کا، جو کہ جنگی قیدی بھی رہ چکے ہیں، کہنا ہے، "جب ہم 1950ء سے 1953ء کے درمیان یہاں تھے، تو ہمیں شمالی کوریا کے خلاف کیوں نہیں پیش قدمی کرنے دی گئی؟ ہم نے دومرتبہ فتوحات حاصل کیں مگر اس وقت کے امریکی صدر نے پیش قدمی روکنے کا حکم دے دیا۔ جنرل میک آرتھر ایک عظیم کمانڈر تھے اور وہ چاہتے تھے، لڑائی جاری رکھی جائے مگر ہمیں ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔

جنرل میک آرتھر کو 1951ء میں اس وقت کے امریکی صدر ٹرومین کی طرف سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ میک آرتھر کا خیال تھا کہ جنگ کا دائرہء کار شمالی کوریا کے حلیف چین تک بڑھا دینا چاہیے اور اگر ضروری ہو، تو جوہری ہتھیار بھی استعمال کئے جائیں۔

رپورٹ : جانسن سٹروتھر/ افسر اعوان

ادارت : امجد علی