1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا واقعی میں ہے بھی، یا نہیں؟

شاہ زیب جیلانی
8 مئی 2020

پاکستان میں اوپر سے نیچے تک کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ ملک میں کورونا اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا ہم نے اسے بنا لیا ہے۔ اس بارے میں شاہ زیب جیلانی کا بلاگ۔

https://p.dw.com/p/3bwqC
Shahzeb Jillani DW Mitarbeiter Urdu Redaktion
تصویر: DW

حالیہ دنوں میں مجھے بارہا اس سوال کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ کورونا واقعی ہے بھی یا یہ صرف باتیں ہیں؟

جامشورو میں رینجرز کی چوکی پر ایک سپاہی نے روکا۔ سوال جواب کے بعد میں  کہا کہ سلام ہے یار آپ کو کہ مئی کی اس تپتی دھوپ میں سنسان سڑک پر ڈیوٹی دے رہے ہو۔ اس نے کہا، ''کیا کریں، ڈیوٹی تو کرنی ہے۔‘‘ پھر فوراﹰ پوچھا، ''ویسے یہ وائرس واقعی میں ہے بھی یا یہ انہوں نے یوں ہی لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ دنیا میں اور پھر یہاں اپنے ملک میں اتنے لوگ مر رہے ہیں تو ضرور کوئی تو بات ہوگی اور ہم سب کو بھی خیال کرنا چاہیے، یہ کہہ کر میں نے شیشہ اوپر چڑھایا اور کار آگے بڑھا دی۔

کراچی سے اکیلے گاڑی چلا کر خیرپور پہنچا۔ یہاں بھی فون پر جس سے بات ہوئی یا جن چند جاننے والوں سے دور دور رہتے ہوئے ملاقات ہوئی تو ان میں بھی کئی لوگ یہی پوچھتے نظر آئے۔ ان میں قصبوں دیہاتوں میں محنت مزدوری کرنے والے لوگ بھی تھے، وکیل اور ڈاکٹر بھی۔

ایک خیرخواہ نے مشورہ دیا کہ اگر بس آپ روزانہ کلونجی اور ادرک کھائیں، تو کرونا آپ کے قریب نہیں پھٹکے گا۔ ایک اور صاحب بتایا کہ اگر لوگ فلاں فلاں آیات پڑھیں گے، تو انشااللہ یہ وائرس  ہمارا کچھ نہیں بگاڑے گا۔

پاکستان میں لاک ڈاؤن، تجارت کا پہیہ جام

پاکستان: عید سے پہلے مزید پابندیاں اُٹھانے پر غور

پاکستان نے کورونا کی تیاری بہت کم کی تھی، یو این ڈی پی

دعا اور دیسی ٹوٹکوں کی افادیت سے انکار نہیں۔ لیکن یہ دوا اور احتیاط کا نعم البدل نہیں ہوتے۔ یہ بات کہنے میں آسان ہے لیکن ہمارے یہاں اکثر لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل۔ جہاں تعلیم اور شعور کی کمی ہوگی، وہاں یہ تو ہوگا۔

لیکن ہمارے یہاں ایسے پڑھے لکھے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ٹھوس سائنسی حقائق کی بجائے افواہوں اور سازشوں کا شکار رہتے ہیں۔ میری نظر میں آج کل اس کا ایک بڑا ذریعہ الٹے سیدھے واٹس ایپ میسجز ہیں جو لوگ بلا سوچے، سمجھے آگے بڑھا دیتے ہیں۔

لیکن ہمارا مسئلہ میڈیا میں جھوٹ اور غلط بیانی سے کہیں زیادہ گمبھیر ہے۔ جتنے شکوک و شبہات لوگوں میں ہیں اس سے کہیں زیادہ کنفیوژن ہمارے حکمرانوں میں ہے۔

لاک ڈاؤن ہونا چاہیے یا نہیں؟ مکمل ہونا چاہیے یا جزوی؟ سخت ہونا چاہیے یا نرم؟ وزیراعظم عمران خان اس پر بار بار متضاد باتیں کرتے آئے۔ انہوں نے پہلے اس کی کھل کر مخالفت کی لیکن چاروں صوبے پھر بھی لاک ڈاؤن میں چلے گئے۔ پھر وزیراعظم نے خود اس میں توسیع کی لیکن یہ بھی کہا کہ یہ اشرافیہ کے فیصلے ہیں، جسے ان کے بقول عام لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں۔

خان صاحب کے وزیروں اور مشیروں نے بھی روز ٹی وی چینلوں پر حکومت سندھ کی مخالفت میں آکر عجیب و غریب باتیں کیں اور وبا کے حوالے سے لوگوں میں کنفیوژن کو فروغ دیا۔

کورونا سے بڑھتی ہوئی اموات پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ ملک میں آخر ٹریفک حادثات میں بھی تو روزانہ لوگ مرتے ہیں جبکہ سندھ میں پی ٹی آئی کے گورنر عمران اسماعیل نے تو یہ اصرار کر کے حد ہی کر دی کہ کورونا ایک عام سا نزلہ زکام ہے اور ہمارے یہاں ''بدقسمتی سے اس بیماری سے اتنا بھونچال نہیں آیا جتنا گندی سیاست سے‘‘۔

ہمارے کئی ڈاکٹروں اور دیگر سرکردہ شخصیات نے انہیں اس قسم کے غیر ذامہ دارنہ بیان پر نادم کرنے کی کوشش کی، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس کا کہیں کوئی اثر ہوگا۔ جس قیادت کی سیاست کا محور ہی غلط بیانیاں، الزام تراشیاں اور انتقامی کارروائیاں ہوں، وہ بھلا اب کیوں اپنی اصلاح کرنے لگی؟

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید