1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

عوامی صحت کے مد نظر برلن میں بڑے مظاہروں پر پابندی

27 اگست 2020

برلن کی مقامی حکومت نے کورونا وائرس کی وبا کے سبب عائد پابندیوں کے خلاف اواخر ہفتہ پر ہونے والے مظاہروں پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ ان کا اہتمام کرنے والی تنظیموں نے حکومت کے حکم کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3hZ65
Berlin | Demonstration gegen Corona-Politik
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Soeder

کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے عائد پابندیوں کے خلاف جرمن دارالحکومت برلن میں سنیچر کے روز ایک بڑے احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا گیا تھا جس پر مقامی حکومت نے پابندی عائد کر دی ہے۔ برلن کے وزیر داخلہ اینڈریاس جیسیل کا کہنا ہے کہ پابندی کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ یکم اگست کو بھی اسی طرح کے ایک مظاہرے کے دوران کورونا وائرس کی وبا پر شک کرنے والوں نے دانستہ طور پر حفظان صحت سے متعلق تمام اصول و ضوابط کو طاق پر رکھ دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مظاہرین نے پولیس سے تمام اصول و ضوابط پر عمل کرنے کا عہد کیا تھا تاہم احتجاج کے دوران بہت سے مظاہرین ماسک کے بغیر تھے اور سوسشل ڈسٹینسنگ جیسے اصول و ضوابط کا خیال نہیں رکھا جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا، ''برلن ان افراد کو جو کورونا کی وبا پر ہی شک کرتے یا دائیں بازوں کے انتہا پسندوں کو اسی طرح کی حرکت دوبارہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔''

 وزیر داخلہ نے اس موقع پر تمام جمہوریت پسند افراد سے اپیل کی کہ وہ اس طرح کے دائیں بازو کے انتہا پسند خیالات کے حامل عناصر سے فاصلہ رکھیں جو کورونا وائرس کا بہانا بناکر جمہوریت پر سوالات کھڑا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سنیچر کے روز ہونے والی جس ریلی میں 20 ہزار تک افراد کے جمع ہونے کی بات کہی جا رہی ہے اس میں تشدد بھڑکنے کا بھی خدشہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ برلن کی انتظامیہ کا فیصلہ قطعی طور پر پرامن اجتماعات کے حق کے خلاف نہیں ہے بلکہ جرمنی کے اس قانون کی پاسداری کے لیے ہے جس میں انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کی بات کہی گئی ہے۔

Berlin Demo gegen Verletzung der Menschenrechte in Belarus
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken

'دی پبلک اسمبلی اتھارٹی' نے اسی طرح کے ایک اور پروگرام پر بھی پابندی کا فیصلہ کیا ہے جو جمعے سے اتوار تک چلنے والا تھا۔ اس کے تحت 'لیتھل  تھنکرز 711' نامی دائیں بازو سے وابستہ ایک تنظیم احتجاج کے لیے اپنے خیمے نصب کرنا چاہتی ہے۔

قانونی چارہ جوئی

 احتجاجی مظاہرے کی تیاری کرنے والی تنظیمیں بضد ہیں اور وہ ان حکومتی پابندیوں کے خلاف عدالت سے رجوع کر رہی ہیں۔ اسٹٹ گارٹ سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر میکائیل بالویج نے کہا کہ وہ اس فیصلے کو عدالت میں چیلنچ کریں گے اور ''میرے خیال سے 29 اگست کو یہ اجتماع ہوگا۔'' دائیں بازو کی سخت گیر جماعت اے ایف ڈی کے رہنما جورگ میوتھین اس پابندی سے اتنے برہم ہیں کہ انہوں نے برلن کے وزیر داخلہ کا ''فوراً استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔''

جرمنی میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بغیر یہ سوچے سمجھے کہ اس طرح کے مظاہروں کے کیا نقصانات ہوسکتے ہیں دائیں بازو کے کارکنان اواخر ہفتہ پر برلن میں زیادہ زیادہ سے افراد کو جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض حلقوں کے مطابق اس کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا جا رہا ہے اور 'برلن میں طوفان مچا دو‘  جیسے پیغامات شیئر کیے جا رہے ہیں۔ 

پولیس کی  دوسب سے بڑی ٹریڈ یونینوں میں سے ایک جی ڈی پی سے وابستہ جورگ ریڈک نے اس بارے میں مقامی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ مظاہروں اور احتجاجی اجتماعات پر چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے پابندی نہیں عائد کرنی چاہیے لیکن برلن میں جو ہونے والا ہے ایسے اجتماعات پر پابندی لگانا فخر کی بات ہے۔

اس دوران کورونا وبا کے پیش نظر جرمنی کی سب سے مقبول ترین ریاست 'نارتھ رائن - ویسٹفالیہ' میں پہلے سے طے میوزک کنسرٹ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ یہ جمعہ چار ستمر کو ہوناتھا جس میں 13 ہزار افراد کے شرکت کی توقع تھی۔ ایسے کنسرٹ کا اہتمام کرنے کے لیے مشہور ماریک لیبر برگ کا کہنا تھا کہ جب تک حالات بہتر نہیں ہو جاتے ایسے پروگرام منسوخ ر ہیں گے اور جن افراد نے ٹکٹ خریدے تھے انہیں پیسے واپس کر دیے جائیں گے۔

ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)

برلن میں پاکستانی اور افغان مہاجرین کے احتجاجی مظاہرے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں