1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کورونا:جنوبی ایشیا کے کروڑوں بچےغربت کے دلدل میں گرتے ہوئے‘

24 جون 2020

اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کورونا بحران کے طویل المدتی اثرات کے بارے میں بتايا گیا ہے کہ يہ وبا جنوبی ایشیاء میں دس کروڑ سے زیادہ بچوں کوغربت کی طرف دھکیل سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3eFyS
BdTD Kinder spielen in Dhaka
تصویر: Reuters/M. Ponir Hossain

جنوبی ایشیا کا خطہ گنجان آباد ہے- دنیا کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ اس خطے میں آباد ہے۔ حالیہ ہفتوں میں اس خطے کے ممالک میں کورونا کی وبا کا پھیلاؤ اور اس سے پیدا ہونے والی بیماری کووڈ انیس کے کیسز میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وائرس سے تباہ شدہ معیشتوں کی بحالی کے لیے ان ممالک نے لاک ڈاؤن ختم کر دیا۔
بچوں کی بہبود سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی یونیسف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'اگرچہ بچے خود وائرس کا شکار کم ہوں گے، لیکن معاشروں پر کورونا کی وبا کے اثرات اتنے شدید ہوں گے کے اس  کا نتیجہ بچوں کے مستقبل کی  شدید تباہی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ جس میں لاک ڈاؤن کے معاشی اور معاشرتی نتائج بھی شامل ہیں۔‘

 

کون کون سے جنوبی ایشیائی ممالک متاثر؟

يونيسف  کے مطابق جنوبی ایشیا، جس میں بھارت، پاکستان، افغانستان، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ اور بھوٹان شامل ہیں، میں تقریباً 600 ملین بچے ہيں، جن ميں سے تقریباً 240 ملین بچے پہلے ہی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

Straßenkinder in Bangladesch
کیا یہ بچے اپنا مستقبل سنوار سکیں گے؟

عالمی ایجنسی نے اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں اس بحران کے طویل المدتی اثرات کے بارے میں انتباہ کیا ہے کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں آئندہ چھ ماہ کے دوران مزید قریب 120 ملین بچے غربت کی نچلی ترین خط سے بھی نیچے  گر سکتے ہیں اور یہ عدم تحفظ کا شکار ہوں سکتے ہيں۔ اسے 'ورسٹ کیس سینیریو‘ یعنی بدترین امکانات کی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

یونیسف کے جنوبی ایشیاء کی علاقائی ڈائریکٹر جین گوخ نے ایک بیان میں کہا، 'کووڈ 19 کے خلاف اس وقت فوری طور پر کارروائی نہ کی گئی تو ایک پوری نسل کی امیدیں اور مستقبل تباہ ہو جائے گا۔"

ہیلتھ کیئر اور دیگر ضروریات زندگی

جین گوخ  کے مطابق حفاظتی ٹیکوں، غذا اور دیگر خدمات کا نظام "بری طرح درہم برہم" ہو چکا ہے۔ یونیسف  کے مطابق بنگلہ دیش میں کچھ غریب ترین خاندان کو ایک دن میں تین وقت کا کھانا میسر نہیں ہے، جبکہ اس جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ سری لنکا میں 30 فیصد خاندانوں نے اپنے کھانے کی مقدار میں کمی کر دی ہے۔

اسکولوں کی بندش کے بعد غریب بچے خاص طور سے دیہی گھرانوں کے بچے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکے۔  ان کی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے یہاں تک کہ بجلی کے حصول کے لیے بھی انہیں جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ "ایسے خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ کچھ پسماندہ علاقوں کے طلباء ان تقریباً  32 ملین بچوں میں شامل ہوسکتے ہیں جو COVID-19 کے حملے سے پہلے بھی اسکول سے محروم تھے۔"

 

Pakistan Kinderunterernährung
پاکستان میں لاتعداد بچے اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے۔تصویر: DW/I. Jabeen

 

کورونا کے مزید اثرات

دیگر بڑے خدشات میں گھریلو تشدد ، افسردگی، ڈپریشن اور ذہنی صحت کے مسائل شامل ہیں جو نوجوانوں کے زیادہ وقت گھر پر گزارنے کے سبب پیدا ہو رہے ہیں۔

رواں ماہ کے شروع میں کنگز کالج لندن اور آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم کی طرف سے جاری کردہ ایک مطالعے میں کہا گیا ہے کہ کورونا کا بحران دنیا کے 395 ملین غریب افراد کی تعداد میں اضافے کے ساتھ اسے ایک بلین تک پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔ ان اضافی غریب افراد میں سے نصف سے زیادہ  کا تعلق، جنوبی ایشیا سے ہو گا جو دنیا کا سب سے زیادہ متاثرہ خطہ ہے۔

ک م/ ع س/ ایجنسیاں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں