1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوئلے کی کان کے کارکن کے گھر سے نکلنے والا ’ہیرا‘

29 ستمبر 2020

کوئلے کی کان میں کام کرنے والے ایک افغان کارکن کی بیٹی شمسیہ علی زادہ نے یونیورسٹی میں داخلے کے امتحان میں ٹاپ کر کے قدامت پسند افغان معاشرے میں ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ شمسیہ اب ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3jAoc
Afghanistan | Shamsia Alizada
تصویر: Mohammad Ismail/Reuters

افغانستان کی وزارت تعلیم کے مطابق 18 سالہ شمسیہ علی زادہ نے کابل یونیورسٹی میں داخلے کے امتحان میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ  اس امتحان میں حصہ لینے والے ایک لاکھ ستر ہزار طلبا و طالبات میں وہ اول نمبر پر رہی۔ شمسیہ کے والد شمالی افغانستان میں کوئلے کی ایک کان میں مزدوری کرتے ہیں۔ تاہم انہیں شوق تھا کہ وہ شمسیہ کو اعلیٰ تعلیم  کے زیور سے آراستہ کریں۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے خاندان کو کابل منتقل کر دیا۔ شمسیہ نے امتحان میں ٹاپ کرنے پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ میرا میری فیملی کی طرف احساس ذمہ داری ہے، جس نے مجھے اس مقام پر پہنچایا ہے۔ اب یہ میرا خواب ہے کہ میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کروں اور اپنے ہم وطنوں کی خدمت کروں۔‘‘

Internationalen Kindertag | Gesichter der Ausgrenzung - Afghanistan
سیو دا چلڈرن کے ایما پر جلال آباد میں چلنے والا لڑکیوں کا اسکول۔تصویر: Save the Children/Mariam Atahi

 

مبارکیں ایک نازک وقت پر

 

شمسیہ علی زادہ کی اتنی بڑی کامیابی تمام افعان لڑکیوں کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے ٹاپ کرنے کی خبر عام ہوتے ہی افغانستان کی وزارت تعلیم نے انہیں سابق افغان صدر حامد کرزئی، افغانستان متعینہ امریکی چارج دے افیئرز اور دیگر غیر ملکی مندوبین کی طرف سے مبارکباد کا پیغام بھیجا۔ اس خبر نے جہاں ملک میں ایک خوشی کی فضا قائم کر دی وہاں اس وقت کو افغانستان کے لیے ایک حساس وقت بھی سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ کابل حکومت طالبان عسکریت پسندوں کے نمائندوں کے ساتھ امن مذاکرات بھی کر رہی ہے۔ یہ وہی انتہا پسند عناصر ہیں، جنہوں نے 1997ء تا 2001 ء اپنے حکومتی دور میں لڑکیوں کو اسکول جانے سے محروم کر دیا تھا۔ تاہم علی زادہ نے کہا، ''میں سیاست کو اپنی تعلیم کی راہ میں نہیں آنے دوں گی۔‘‘ اس نے ایک بیان میں کہا، ''مجھے طالبان کی واپسی کے بارے میں کچھ خدشات ہیں لیکن میں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہتی کیونکہ میرے خواب میرے خوف سے کہیں زیادہ بڑے ہیں۔‘‘

Afghanistan - Schule - Mädchen
میک شفٹ اسکول میں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنے کا شوق قابل دید۔تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Anwar Danishyar

 

طالبان کے موقف میں تبدیلی

 

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے رویے اور موقف میں تبدیلی لائے ہیں۔ اب وہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے دیں گے۔ تب بھی بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ اگر طالبان کو دوبارہ سیاسی طاقت اور اثر و رسوخ حاصل ہوا، تو افغانستان میں خواتین کے حقوق پھر سے بری طرح پامال ہوں گے۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق افغانستان میں اب بھی 2.2 ملین بچیاں اسکول جانے سے محروم ہیں اور معاشرے میں خواندہ خواتین کی شرح 30 فیصد سے بھی کم ہے۔ اس موقع پر امریکی چارج دے افیئرز روس ولسن نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''آپ کی شان و ذکاوت اور تحمل ناقابل تردید ہیں ، جس طرح آپ کے کارنامے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ افغانستان میں دو دہائیوں میں کتنی ترقی کی ہے۔‘‘

ادھر سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی ایک بیان میں کہا ہے، ''علی زادہ اور دیگر نوجوانوں کی اس امتحان میں کامیابی افغانستان میں روشن مستقبل کی امید کی علامت ہے۔‘‘

ک م / م م (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں