1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کم سِنی میں ماں بننے والی لڑکیوں کے مسائل

رپورٹ رفعت سعید/ کراچی4 نومبر 2013

UNFPA کے پاکستان میں نمائندے رابی رویان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 17فیصد لڑکیوں کی شادی 18سال کی عمر سے پہلے ہی ہو جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1AB6S
تصویر: picture alliance/AP Photo

دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کم عمری کی شادی اور اوائلِ بلوغت میں ماں بننا ایک عام سی بات ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 13 فیصد بچیوں کی شادیاں 15سال کی عمر تک ہوجاتی ہیں اور خاص طورپر صوبہ سندھ میں بچوں کی شادیوں کا رواج بہت زیادہ عام ہے۔ قانون کے مطابق لڑکیوں کی شادی 16سال کی عمر سے پہلے نہیں ہوسکتی اور اب ایک نیا قانون منظوری کا منتظر ہے جو اس حد کو بڑھا کر 18سال کر دے گا لیکن معاشرتی رواج سے متعلق حقیقت کچھ اور ہی ہے۔


اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ‘ UNFPA کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق غریب ممالک میں روزانہ 20,000 ایسی بچیاں ہیں جو 18سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ماں بن جاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح بہت کم ہے اور دنیا کی 95 فیصد کم عمر مائیں غریب ممالک میں ہی ہیں۔ اس کا تعلق غربت سے بہت گہرا ہے۔ پاکستان میں بھی غریب ترین علاقوں میں یہ رواج عام ہے۔

Frühgeburt in chinesischem Krankenhaus
کم سن ماؤں کے بچوں کو بھی اکثر صحت کے مسائل کا سامنا ہوتا ہےتصویر: picture-alliance/CHINAFOTOPRESS/MAXPPP

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ لڑکیاں ناپختہ عمر کی ہیں ۔ پاکستان ڈیموگرافک ہیلتھ سروے کے مطابق اس عمر کی لڑکیوں میں زچگی کی شرح ساڑھے چارفیصد کے قریب ہے۔
UNFPA کے پاکستان میں نمائندے رابی رویان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 17فیصد لڑکیوں کی شادی 18سال کی عمر سے پہلے ہی ہوجاتی ہے۔ ایسی عورتوں کی تعلیم رک جاتی ہے اور ان کی صحت کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ ان کو فسٹولہ جیسی بیماریوں کا سامنہ کرنا پڑتا ہے اور اسی وجہ سے یہ رپورٹ پاکستان کیلئے بہت اہم ہے۔


رویان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شادی کی عمر کے قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے اور جن صوبوں میں اس پر کام ہو رہا ہے وہ قابلِ ستائش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ2010 ء میں بیس لاکھ لڑکیاں کم عمری میں ہی شادی کے بندھن میں بندھ گئی تھیں اور اگر معاملات یوں ہی رہے تو 2030 ء تک ایسی لڑکیوں کی تعداد بڑھ کر چوبیس لاکھ ہوجائے گی۔ ایسی لڑکیاں ایک صحت مند زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہوجاتی ہیں۔
خواتین کے صحت کے امور سے منسلک افراد کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ایک بڑا مسئلہ مانع حمل ذرائع کی عام عورت تک رسائی ہے۔ پاکستان کی سب سے سینیئر مِڈ وائف یا دائی امتیاز کمال کہتی ہیں کہ ایک بڑی تعداد میں عورتیں چاہتی ہیں کہ وہ اتنی جلد حاملہ نہ ہوں لیکن معاشرتی اور معاشی مسائل کی وجہ سے ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوپاتی۔ UNFPA کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 25 فیصد خواتین کی خاندانی منصوبہ بندی کی خواہش پوری نہیں ہوپاتی۔ ایک ممتازماہرِ امراض زچہ و بچہ ڈاکٹر شیر شاہ سیّد کہتے ہیں ایک بڑی تعداد میں ایسے معاملات تھر کے دورافتادہ دیہی علاقوں میں بہت پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے علاقوں میں نہ ڈاکٹر ہیں، نہ تربیت یافتہ دائیاں، اس کے نتیجے میں زچگی میں اموات کی شرح بھی یہاں بہت زیادہ ہے۔

Indien Kinderarmut Armut Ernährung
غربت سب کچہ کرواتی ہےتصویر: AFP/Getty Images

امتیاز کمال کہتی ہیں کہ پاکستان میں دائیوں کی تربیت کی کمی بھی ایک وجہ ہے کہ عورتیں یا تو نہایت کم عمری میں ماں بن جاتی ہیں یا پھر زچگی کے دوران مر جاتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں افغانستان کے بعد پاکستان میں عورتوں کے حاملہ ہونے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور پڑوسی ملک ایران سب ہی اس معاملے میں پاکستان سے بہتر ہیں۔ ڈاکٹر شیر شاہ کے مطابق اس مسئلے کا براہ راست تعلق غربت سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے غربت بڑھ رہی ہے ویسے ویسے اس مسئلے کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عموماً ماں باپ اپنے بچوں کی شادی کم عمری میں یہ سوچ کر کر دیتے ہیں کہ یوں وہ اپنے بچوں کا مستقبل بہتر کر رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ کسی قسم کی قانون سازی یا حکومت کا کوئی حکم اس صورتحال کو روک سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سماج میں لوگوں کو آگہی ہونی چاہیے کہ یہ غلط طرز عمل ہے۔ یہ آگہی لوگوں میں رسمی تعلیم سے نہیں آتی۔ وہ حکومت اور میڈیا کو اس آگہی کی کمی کا ذمے دار ٹہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک لمبا کام ہے جو جلد ختم نہیں ہوسکتا۔
فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن کی نبیلہ ملک کہتی ہیں کہ کم عمری کی شادی سے بچیوں کی زندگیا ں بہت بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس طرح ان کا زندگی کا حق، تعلیم کا حق اور صحت کا حق چھن جاتا ہے۔
رویان کہتے ہیں کہ پاکستان میں معاشرتی مسائل پر عموماً سرکاری اخراجات بہت کم ہیں۔ تعلیم اور صحت عامہ پر سرکاری بجٹ بڑھائے بغیر ان کو ان مسائل میں بہتری مشکل سے نظر آتی ہے۔
پاکستان میں قانون سازی کے عمل کے باوجود اس امر پر تمام ماہرین متفق ہیں کہ تعلیم اور معاشرتی اصلاح کے بغیر اس مسئلے کا حل نہیں مل سکتا۔