1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کم سِن لڑکیاں غربت کے باعث جسم فروشی پر مجبور

افسر اعوان17 اگست 2015

میانمار کی وُت یی کو اس وقت جذباتی طور پر شدید دھچکا لگا جب اس کی جسم فروش ماں نے اسے بتایا کہ اس نے اس کا ’کنوارہ پن‘ ایک کاروباری شخص کے ہاتھ تین ہزار ڈالرز کے عوض فروخت کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GGbu
تصویر: picture alliance / Photoshot

وُت یی کی عمر اس وقت محض 14 برس تھی اور گھریلو کام کاج میں مدد دینے اور اپنے بھائی کی دیکھ بھال کرنے کے لیے اسے اپنا اسکول چھوڑنا پڑنا تھا۔ غربت کے شکار خاندان سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی کے پاس کمائی کا ظاہر ہے کوئی ذریعہ نہیں تھا۔

مون سون کا موسم شروع ہونے کو تھا اور ینگون کے علاقے ہیلنگاتھایا Hlaingthaya میں واقع ان کے گھر کی گھاس پھونس سے بنی چھت کو فوری طور پر مرمت کی ضرورت تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے بھائی کی اسکول کی فیس اور کچھ پرانے قرضوں کی فوری واپسی کے لیے بھی رقم درکار تھی۔

’’اگلی صبح مجھے اس شخص کے ساتھ جانا پڑا، مگر اس سے قبل ڈاکٹر نے مجھے نشہ آور دوا کا ایک انجکشن لگا دیا۔ وہ مجھے اپنی کار میں شہر کے مضافات میں واقع اپنے گھر لے گیا۔ میں نے پورا دن اس کے ساتھ گزارا۔‘‘ 16 سالہ وُت یی نے دو برس قبل کے اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا۔

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے ساتھ کام کرنے والی ایک انڈیپینڈینٹ نیوز سروس کو ایک انٹرویو کے دوران وُت یی کا مزید کہنا تھا، ’’مجھے تکلیف نہیں تھی، لیکن جب شام کو مجھے گھر بھیجا گیا تو دوائیوں کے اثر کی وجہ سے میں درست طور پر چل نہیں پا رہی تھی۔‘‘

وُت یی نے اپنا اصل نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ مزید بتایا کہ کچھ عرصے بعد اسے ینگون کے ایک مصروف علاقے میں واقع ایک ایسے مساج پارلر میں کام کا آغاز کرنا پڑا جہاں جسم فروشی بھی کی جاتی تھی۔ دو ماہ بعد اس نے وہ بھی چھوڑ دیا اور پھر اسی شہر کی گلیوں میں جسم فروشی کا آغاز کر دیا۔

میانمار میں جسم فروشی کی خفیہ نوعیت کے باعث حتمی طور پر یہ جاننا ممکن نہیں ہے کہ ینگون شہر میں وُت یی جیسی کتنی کم عمر لڑکیاں جسم فروشی کر رہی ہیں۔ خیال رہے کہ ینگون میانمار کا سب سے بڑا شہر ہے اور 53 ملین کی آبادی والے اس ملک کے قریب پانچ ملین افراد اس شہر میں رہتے ہیں۔

تاہم جسم فروش خواتین اور ان کے حوالے سے امدادی کام کرنے والے کارکنان سے انٹرویوز کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ میانمار میں ٹین ایج لڑکیوں کے لیے اس دھندے میں ملوث ہو جانا غیر معمولی بات نہیں ہے۔

میانمار میں 40 تا 80 ہزار ایسی خواتین جسم فروشی سے وابستہ ہیں جن کی عمریں 15 اور 49 برس کے درمیان ہیں
میانمار میں 40 تا 80 ہزار ایسی خواتین جسم فروشی سے وابستہ ہیں جن کی عمریں 15 اور 49 برس کے درمیان ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

امدادی تنظیم ماری اسٹوپس انٹرنیشنل میانمار کے کنٹری ڈائریکٹر سِڈ نینگ کہتے ہیں، ’’اس مسئلے کا براہ راست تعلق غربت سے ہے ... معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض ان پر تنقید نہ کرے بلکہ یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور انہیں درست راستے پر لانے کےلیے مدد فراہم کرے۔‘‘

میانمار اور اقوام متحدہ کی طرف سے 2013ء میں لگائے گئے اندزوں کے مطابق اس وقت ملک میں 40 تا 80 ہزار ایسی خواتین جسم فروشی سے وابستہ تھیں جن کی عمریں 15 اور 49 برس کے درمیان تھیں۔

'سیکس ورکر ان میانمار نیٹ ورک‘ نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والی تھو زار وِن کے بقول زیادہ تر کم عمر لڑکیاں خاندان کی مشکلات اور ملازمت کے امکانات کے لیے دیہی علاقوں سے شہروں کا رُخ کرتی ہیں: ’’بچپن میں جسم فروشی شروع کرنے والی لڑکیاں زیادہ تر اس دھندے میں اس لیے پڑتی ہیں کہ ان کے والدین یا ان کے سرپرست ان کا کنوارہ پن فروخت کر دیتے ہیں۔‘‘

ایک 21 سالہ جسم فروش خاتون کے مطابق، جس نے اپنا فرضی نام پوہ پوہ بتایا ’ورجن مارکیٹ‘ کے ذریعے اس دھندے میں ملوث ہونے والی زیادہ تر لڑکیوں کو اس مارکیٹ سے نکلنے میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔