1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کلیدی نتائج: پاکستان کو سنسرشپ اور نگرانی سے نمٹنے کی ضرورت

قرةالعین زمان
1 اگست 2019

پاکستان میں آن لائن تجارتی سرگرمیوں (ای کامرس)  کے لیے ضروری سہولیات کی کمی کے سبب کروڑوں افراد ڈیجیٹل شراکت داری کے وسیع مواقع سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔

https://p.dw.com/p/3N8Bd
DWA DW Akademie speakup barometer Pakistan Barometer Urdu

ملک میں انٹرنیٹ سہولیات کی فراہمی میں حالیہ بہتری کے باجود مجموعی طور پر عام لوگوں کی زندگی میں انٹرنیٹ کا عمل دخل انتہائی کم ہے۔ انٹرنیٹ کا ڈھانچہ ناقص اور اس کے نرخ بہت زیادہ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کی مہم کے نام پر انٹرنیٹ کو بندش، پابندیوں اور کڑی نگرانی کا سامنا رہتا ہے۔ تاہم حالیہ سالوں میں پاکستان میں موبائل فون صارفین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ہر چار میں سے تین پاکستانی شہری موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ  پندرہ کروڑ صارفین  موبائل فون سروسز استعمال کر رہےہیں اور موبائل انٹرنیٹ کی سہولت ان کے لیے ڈیجیٹل شراکت داری کے مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تاہم متعدد رکاوٹوں کے باعث اب بھی کاروباری اور سماجی شعبوں میں ڈیجیٹل شراکت داری کو قابل ذکر حد تک بڑھایا نہیں جا سکا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں آن لائن کاروباری سرگرمیوں کے مواقع کو فروغ دینے والی ضروری سہولیات کی عدم دستیابی ہے۔ رقوم کی آن لائن ترسیل کے لیے 'پےپال‘ وغیرہ جیسے کسی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ مقامی سطح پر تخلیقی کام کرنے والوں، صحافیوں حتٰی کہ بڑے میڈیا ہاؤسز کے لیے بھی ایسا کوئی کاروباری ماڈل دستیاب نہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو انٹرنیٹ سے جوڑنے کے لیے سرمایہ کاری کر سکیں۔ اس طرح پاکستان کی معیشت اور ڈیجیٹل میڈیا دونوں پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ محصولات کا کوئی قابل عمل ماڈل نہ ہونے کی وجہ سے ڈیجیٹل شراکت داری کا پاکستان میں جدت کی جانب گامزن اور دیگر شعبوں میں کوئی قابل ذکر کردار نہیں ہے۔

#Speakup Barometer Pakistan
مبہم اور تشریح طلب قوانین کو صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ کراچی میں جیو ٹیلی وژن کا نیوز رومتصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

پاکستان میں روایتی میڈیا ہاؤسز (صحافتی ادارے) جدید طرز صحافت کو اپنانے کے لیے سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ دوسری جانب تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کے پاس اس بارے میں تحقیق کے لیے مطلوبہ صلاحیت موجود نہیں ہے۔ سرمایہ کاری کے بدلے منافع نہ ملنے کے پیش نظر نجی شعبے میں بھی اس بارے میں کوئی تحقیق نہیں کی جا رہی۔ میڈیا ہاؤسز کو بھی اس طرح کی تحقیق میں سرمایہ کاری سے فوری طور پر کوئی منافع ملنے کی توقع نہیں اور نہ ہی انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار شروع کرنے والی نئی کمپنیاں (اسٹارٹ اپس) آن لائن صحافت میں کوئی دلچسپی رکھتی ہیں۔

صحافیوں کو یونیورسٹی کی سطح پر یا ان کے دفاتر میں آئن لائن صحافت کے جدید طریقوں سے روشناس نہیں کرایا جا رہا۔ اسی طرح صحافتی اداروں میں مارکیٹنگ کے شعبوں میں بھی یہ اہلیت نہیں  کہ وہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر چلنے والی روایتی تشہیری مہم کو ڈیجیٹل میڈیا تک وسعت دے سکیں۔

ایسے ادارے جنہوں نے آئن لائن صحافت کا آغاز کیا ہے، وہ بھی صرف معلوماتی اور تفریحی مواد کی تیاری تک ہی محدود ہیں۔ مالی وسائل کی کمی کے سبب ان کا مواد کم معیاری ہے اور ان کی دسترس صرف اور صرف سوشل میڈیا کے چند پلیٹ فارمز تک ہی محدود ہے۔ بڑے میڈیا ہاؤسز نے بھی ڈیجیٹل مواد کی تیاری اور انٹرنیٹ کے ذریعے اس کی عوام تک ترسیل کی کوشش نہیں کی۔ ان کی توجہ صرف ٹیلی وژن کے لیے مواد کی تیاری پر مرکوز ہے۔ نتیجہ یہ کہ اب صرف وہی مواد انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، جو کسی وجہ سے نیوز چینلز یا اخبارات کی زینت نہ بن سکا ہو۔

ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور آن لائن کی سکڑتی دنیا

پاکستان میں ماضی میں ڈیجیٹل میڈیا روایتی میڈیا کی نسبت قدغنوں اور ریاستی پابندیوں سے قدرے آزاد تھا۔ اسے نیوز چینلز اور اخبارات کی طرح سیاسی اور کاروباری دباؤ کا سامنا بھی نہیں تھا۔ تاہم اس سے قبل کہ صحافی اور عام شہری انٹرنیٹ پر موجود آزادی اظہار کے ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے، ریاستی اداروں نے قومی سلامتی کے نام پر انٹرنیٹ کے استعمال پر بھی قدغنیں لگا دیں۔ حکومتی سطح پر اس سلسلے میں قانون سازی بھی کر دی گئی۔

#Speakup Barometer Pakistan
غیر سرکاری تنظیموں نے عام شہریوں کو انٹرنیٹ قوانین سے متعلق آگہی اور براہ راست قانونی امداد مہیا کرنے کے لیے مثبت اقدامات کیے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem

نئے قوانین آن لائن ہراسگی اور نفرت انگیز مواد کی روک تھام کے لیے تو خوش آئند ہیں تاہم ان قوانین کے ذریعے اختلاف رائے رکھنے والوں کی آواز بند کر دینے اور ان کی کڑی نگرانی کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔

الیکٹرانک جرائم  کی روک تھام کے لیے بنائے گئے مبہم قوانین کا دائرہ انتہائی وسیع رکھا گیا ہے۔ ان قوانین کے تحت اسلام کی عظمت، پاکستان کی سلامتی اور دفاع، امن عامہ، عدالتوں کے لیے احترام اور اخلاقیات کے منافی اقدامات کے علاوہ کسی بھی ریاستی ادارے کے خلاف اظہار رائے کو قابل سزا جرائم قرار دے دیا گیا ہے۔ اس طرح کے مبہم اور تشریح طلب قوانین کو صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے سال 2018 ء کی پہلی ششماہی کے دوران فیس بک انتظامیہ کو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں قابل اعتراض مواد ہٹانے کی سب سے زیادہ درخواستیں بھجوائیں۔

پاکستان کے توہین مذہب سے متعلق متنازعہ قوانین کو بھی انٹرنیٹ پر اظہار رائے کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔

حکومت نے شہریوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شکایات درج کرانے کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ ان نئے قوانین کے تحت ایک شخص کو موت کی سزا بھی سنائی گئی۔ اس ملزم نے مبینہ طور پر ایک شخص کے ساتھ مذہبی بحث میں حصہ لیا تھا اور بحث میں شریک دوسرا شخص دراصل قانون نافذ کرنے والے ایک ادارے کا ایک اہلکار تھا جو بھیس بدل کر اس مبینہ ملزم سے آن لائن بات چیت کر رہا تھا۔ اس طرح 2017ء میں خفیہ اداروں نے مبینہ طور پر چار انٹرنیٹ بلاگرز کو بھی اغوا کر لیا تھا۔ ان بلاگرز کو توہین مذہب کے الزامات پر مبنی ایک خطرناک آن لائن مہم کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔

دوسری جانب صحافی مختلف سیاسی جماعتوں کے حامیوں کی جانب سے اخلاق سے عاری آن لائن حملوں کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کے حامیوں کے لیے انٹرنیٹ کی زبان میں 'ٹرول آرمیز‘ یا 'ٹرول فوجوں‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ ملک میں قائم ایک ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے بغیر کوئی وجہ بتائے ویب سائٹس کو بند کر دیا جاتا ہے۔ اس اتھارٹی نے ابھی تک خود کو کسی بھی قسم کی پارلیمانی نظر ثانی سے بچا کر رکھا ہوا ہے۔ ریگولیڑی اتھارٹی کے فیصلوں کو عدالت میں چیلنج کرنا ایک مہنگا اور طویل عمل ہے اور عدالتی فیصلے آنے میں کئی کئی سال لگ سکتے ہیں۔

 البتہ ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی چند غیر سرکاری تنظیموں نے عام شہریوں کو انٹرنیٹ قوانین سے متعلق آگہی اور براہ راست قانونی امداد مہیا کرنے کے لیے مثبت اقدامات کیے ہیں۔ مگر یہ تنظیمیں بھی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں کہ وہ صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ اور انٹرنیٹ کے بارے میں غیر جانبداری کے اصولوں سے متعلق قانون سازی کرے۔

سائبر جرائم سے متعلق مبہم قوانین اور اظہار رائے کی محدود آزادی

پاکستان میں انٹرنیٹ کے استعمال سے متعلق قواعد و ضوابط میں شہریوں کے ڈیجیٹل حقوق کا تحفظ اور پسے ہوئے طبقات کی آن لائن نمائندگی کی حوصلہ افزائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے برعکس ان قواعد و ضوابط کو سیاسی مخالفین پر توہین مذہب اور غداری کے جھوٹے الزامات لگانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہبی اقلیتیں اس طرح کے الزامات کا نشانہ بنائے جانے کے لیے ایک آسان ہدف ہیں۔ اسی طرح خواتین کو بھی انٹرنیٹ پر بڑے پیمانے پر ہراساں کیے جانے اور کڑی نگرانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین روایتی معاشرتی رویوں کی وجہ سے پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہوتی ہیں۔

سماجی رابطوں کے مشہور پلیٹ فارمز نے صارفین کے خلاف شکایات پر حکومت پاکستان کے ساتھ جو تعاون شروع کر رکھا ہے، اس کے نتیجے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اختلاف رائے مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورت حال کے سبب پیشہ ور صحافی بھی متوازن صحافت سے قاصر ہیں۔ جدت پسندی، تربیت اور محصولات کے کسی قابل عمل ماڈل کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان میں صحافتی اداروں کا معیار زوال پذیر ہے۔ ریاستی قدغنوں، سیاسی گروپوں کے دباؤ، تشہیری گروپوں کے کاروباری مفادات اور شدت پسند عناصر کی دھمکیوں نے ٹی وی نیوز چینلز کی بھر مار والی پاکستانی صحافت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

ان مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں ڈیجیٹل شراکت داری کو فروغ دینےکے نئے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے  پائیدار بزنس ماڈلزکی تخلیق ناگزیر ہے اور یہ سب پاکستان میں رقوم کی ادائیگیوں کا ایک مربوط الیکٹرانک نظام متعارف کرانے اور اس کے فروغ سے  ہی ممکن ہو سکے گا۔