1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیری شہری بطور ’انسانی ڈھال‘، بھارتی فوج کی مذمت

اندریاس اسٹین زیمونز، چوک پینفولڈ/ ع ح
16 اپریل 2017

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں فوجی دستوں کی طرف سے وہاں مظاہرین میں شامل ایک شہری کے بطور ’انسانی ڈھال‘ استعمال کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ اس واقعے میں ایک بھارتی فوجی جیب پر بندھے ایک کشمیری شہری کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔

https://p.dw.com/p/2bIxI
Indien Srinagar Unruhen Sicherheitskräfte
تصویر: Reuters/C. McNaughton

بین الاقوامی سطح پر سوشل میڈیا اور خاص طور پر بھارتی سوشل میڈیا پر یکدم وائرل ہو جانے والا یہ ویڈیو کلپ صرف گیارہ سیکنڈ کا ہے اور اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح بڈگام کی گلیوں سے گزرنے والی بھارتی فوجی دستوں کی ایک جیب پر ایک نامعلوم کشمیری شہری کو اس جیب کے سامنے والے حصے پر اس طرح باندھا گیا ہے، کہ ممکنہ طور پر پتھراؤ کرنے والے مظاہرین اگر طیش میں آ کر کچھ کریں، تو اس کا نشانہ بھارتی فوجیوں کی بجائے یہی کشمیری باشندہ بنے۔

اس طرح اس واقعے میں بھارتی دستوں نے اس کشمیری شہری کو، جو مبینہ طور پر کشمیری مظاہرین میں سے ایک تھا، اپنے لیے ’انسانی ڈھال‘ کے طور پر استعمال کیا۔ بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بڈگام وہی علاقہ ہے، جہاں گزشتہ ویک اینڈ پر ایک ضمنی پارلیمانی انتخاب کے موقع پر پرتشدد واقعات دیکھنے میں آئے تھے۔ اس دوران وہاں بھارتی پولیس اور نیم فوجی دستوں کی مظاہرین کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔

اس ویڈیو کلپ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں پس منظر میں ہندی زبان میں کہے گئے یہ الفاظ بھی سنے جا سکتے ہیں: ’’پتھراؤ کرنے والوں کے ساتھ ایسا ہی کیا جائے گا۔‘‘

بھارت سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ملکی فوج نے اس واقعے کی چھان بین کا جکم دے دیا ہے۔ فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیا نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’اس ویڈیو کلپ میں نظر آنے والے مناظر کی تصدیق اور تحقیق کی جا رہی ہے۔‘‘

بھارتی حکام کو حال ہی میں اس علاقے میں ایک مقامی ضمنی الیکشن اس وجہ سے ملتوی کرنا پڑ گیا تھا کہ تب وہاں ہونے والے پرتشدد واقعات میں آٹھ افراد مارے گئے تھے۔ اس دوران مقامی کشمیری مظاہرین نے وہاں موجود سکیورٹی دستوں پر پتھراؤ بھی کیا تھا، جنہوں نے جوابی کارروائی بھی کی تھی۔

بھارت کے زیر انتظام ریاست جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی یہی ویڈیو کلپ اپنے اکاؤنٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے اور ساتھ ہی بھارتی اہلکاروں کی مذمت بھی کی ہے۔

عمر عبداللہ نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا، ’’اس نوجوان شہری کو اس لیے ایک فوجی جیب کے سامنے والے حصے پر باندھ دیا گیا تھا کہ کوئی بھی اس جیپ پر پتھراؤ نہ کرے۔ یہ بہت ہی پریشان کن بات ہے۔‘‘ عمر عبداللہ نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ بھارتی حکام کو اس واقعے کی چھان بین کرتے ہوئے ذمے دار افراد کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے۔

دریں اثناء جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے ایک مقامی پولیس اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارتی سکیورٹی دستوں نے یہ قدم اپنے ’ذاتی دفاع‘ میں اٹھایا اور اس طرح یہ سکیورٹی اہلکار اُس وقت اِس علاقے سے بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہو سکے تھے۔

بھارت مخالف کشمیری کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کے اور اس سے ملتے جلتے کئی متنازعہ اور انسانی وقار کے منافی واقعات اس ریاست میں اس وقت سے ہو رہے ہیں، جب سے وہاں 1980ء کی دہائی کے آخر سے بھارت مخالف عوامی تحریک جاری ہے۔

خرم پرویز نامی ایسے ہی ایک کشمیری کارکن نے دعویٰ کیا کہ بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ایسے جرائم کا عشروں سے کوئی نوٹس ہی نہیں لیا جاتا رہا اور اب بھی یہ واقعات صرف سوشل میڈیا کی وجہ سے منظر عام پر آنا شروع ہوئے ہیں۔

بھارت کے زیر انتطام کشمیر کی آبادی قریب 12 ملین ہے، جس میں سے قریب 70 فیصد مسلمان ہیں اور اس خطے میں 1989ء سے مقامی کشمیری عسکریت پسند بھارتی حکمرانی کے خلاف اپنی مسلح مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔