1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیری رہنما سوز کی نظر بندی: کون جھوٹ بول رہا ہے؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، سرینگر کشمیر
30 جولائی 2020

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے کانگریسی رہنما اورسابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز کا کہنا ہے کہ وہ گھر میں نظر بند ہیں اور سکیورٹی فورسز انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتی لیکن کشمیر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ آزاد ہیں۔

https://p.dw.com/p/3g9St
Indien Journalist Kuldip Nayar gestorben
تصویر: Imago/Hindustan Times

بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کے حلف نامے کی بنیاد پر کشمیری رہنما سیف الدین سوز کی اہلیہ کی اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں ان کی نظر بندی کا ذکر کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر رہا کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

سیف الدین سوز کی اہلیہ ممتازالنساء نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ گزشتہ برس پانچ اگست کو جب کشمیر سے متعلق آئین کی خصوصی دفعہ کا خاتمہ کیا گیا تب سے ان کے شوہرگھر میں قید ہیں اور ان کے تمام بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، تاہم حکومت نے اب تک اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی ہے۔

لیکن اس کے جواب میں کشمیر انتظامیہ نے اپنے حلف نامے میں کہا کہ سیف الدین سوز آزاد ہیں اور ''انہیں نہ تو کبھی حراست میں لیا گیا اور نہ ہی گھر میں نظربند کیا گیا ہے۔ سکیورٹی کلیئرنس کی بنیاد پر ان کی نقل و حرکت پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔'' حکومت نے اپنے حلف نامے میں سیف الدین سوز کی اہلیہ کی درخواست کو جھوٹا اور فضول بتایا اور سپریم کورٹ کے تین ججوں نے اس کی بنیاد پر مقدمہ خارج کر دیا۔

لیکن 83 سالہ کانگریسی رہنماسیف الدین سوز حکومت کے اس رویے سے صدمے میں ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے فوری بعد انہوں نے اپنے گھر کے باہر موجود میڈیا سے بات کرنے کی کوشش کی تاہم پولیس نے انہیں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس معاملے میں صریحا ًجھوٹ سے کام لیا ہے۔

انہوں نے اس سلسلے میں ایک بیان جاری کر کے کہا، ''میں سپریم کورٹ میں اس حکومتی موقف کا بہت سخت نوٹس لے رہا ہوں، کہ گزشتہ برس پانچ اگست کو جب حکومت نے دفعہ 370 کا خاتمہ کیا اور کشمیر کو مرکزکے زیرانتظام دو علاقوں میں تقسیم کیا، تو اس وقت نہ تو مجھے گھر میں نظربند کیا گیا تھا اور نہ ہی کسی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔'' مسٹر سوز نے کہا کہ حکومت نے جھوٹ کا سہارا لیا ہے کیونکہ، ''اس نے پانچ اگست 2019 سے مجھے غیر قانونی طور پر قید میں رکھا ہوا ہے۔"

کشمیر: بشیر احمد خان کو کس نے مارا؟

مسٹر سوز کے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے عدالت میں اس بات کے لیے جرح کی کہ اس حوالے سے جموں کشمیر کی انتظامیہ کا حلف نامہ حقائق کے برعکس ہے۔ لیکن ججوں نے یہ کہہ کر مقدمہ خارج کر دیا کہ وہ اس بارے میں مزید سماعت نہیں کرسکتے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارتی حکومت نے متعدد رہنماؤں کو ان کے گھروں میں بغیر کسی سرکاری نوٹس کے قید کر رکھا ہے۔ ایسے درجنوں رہنماؤں کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد ہیں تاہم یہ سب سکیورٹی حکام اس طرح کرتے ہیں کہ اسے قانونی جواز حاصل نہیں اور اگر کوئی قانونی طور پر اسے چیلنج کرے تو حکومت کہتی ہے کہ کوئی ایسی پابندی یا گرفتاری نہیں ہے تاہم حقیقت میں حکومت نے انہیں حراست میں رکھا ہوا ہوتا ہے اور ان کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کی ہوتی ہے۔       

گزشتہ برس حکومت نے جب کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی آئینی دفعہ ختم کی تھی تو اس کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لیے بھارت نے علیحدگی پسند لیڈروں سمیت سینکڑوں بھارت نواز رہنماؤں کو بھی گرفتار کر لیا تھا اور سیف الدین سوز بھی اسی وقت سے اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔ سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی جیسے اب بھی سینکڑوں رہنما حکومت کی قید میں ہیں۔

اس دوران حکومت نے جموں کشمیر بار ایسو سی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم کو اس شرط پر رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ وہ آئندہ سات اگست تک کوئی بیان نہیں دیں گے۔ اس معاملے پر سماعت کے دوران عدالت نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ کیا حکومت ان کو اس شرط پر رہا کرنے کے لیے تیار ہے کہ وہ سات اگست تک نہ تو کشمیر جائیں گے اور نہ ہی کوئی بیان دیں گے تو حکومت نے کہا کہ ان کی گرفتاری کی ایک برس کی معیاد چھ اگست کو پوری ہورہی ہے اور حکومت اس میں توسیع نہیں چاہتی ہے۔ لیکن بعد میں حکومت نے انہیں فوری طور پر رہا کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ عید گھر پر منا سکیں۔

میاں عبد القیوم کو پبلک سیفی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، اس قانون کے مطابق حکومت کسی بھی شخص کو بغیر مقدمہ چلائے چھ ماہ تک جیل میں رکھ سکتی ہے اور اگر ضرورت پڑے تو اس میں چھ ماہ کی توسیع کر سکتی ہے۔ اس قانون کے تحت اب بھی سینکڑوں کشمیری رہنما بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں