1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیری بچی کا ریپ اور قتل، چھ ملزمان کے جرائم ثابت ہو گئے

10 جون 2019

بھارت کی ایک عدالت نے ایک آٹھ سالہ مسلمان بچی کے ریپ اور قتل کے مقدمے میں چھ ہندو ملزمان کو قصور وار قرار دے دیا ہے۔ ان مجرموں میں ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر اور چار پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/3K8UM
تصویر: Reuters/C. McNaughton

پٹھان کوٹ کی ایک عدالت کے جج تیجوندر سنگھ نے اپنے فیصلے میں ایک ملزم کو ناکافی شواہد کی بنا پر رہا کرنے کا حکم بھی دے دیا۔ مجرموں کے لیے سزاؤں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ مقتولہ بچی کے اہل خانہ اور بھارت کے زیر اتنظام کشمیر کے سیاسی حلقوں نے اس عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

نیوز ایجنسی اے پی سے بات چیت کرتے ہوئے اس بچی کے والد محمد اختر نے کہا، ”ہمارے خاندان کو ایک عذاب کا سامان رہا ہے۔ ہمارے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ان حیوانوں کو پھانسی دی جانا چاہیے۔‘‘

ریپ اور قتل کے اس جرم کا ارتکاب جنوری دو ہزار اٹھارہ میں کیا گیا تھا۔ بھارتی پولیس کی کرائمز برانچ کی چارج شیٹ کے مطابق اس گھناؤنے جرم کی منصوبہ بندی ریٹائرڈ سرکاری افسر سانجھی رام اور دیپک کھجوریہ نے کی تھی، جس کا مقصد بظاہر کٹھوعہ کے ایک گاؤں سے متعلقہ مسلمان خاندانوں کو بےدخل کرنا تھا۔

پولیس کے مطابق اس بچی کو اغوا کر کے ایک مندر کے احاطے میں کئی روز تک ریپ اور تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے اس کی لاش کھیتوں میں پھینک دی گئی تھی۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آٹھ سالہ بچی کا ریپ اور قتل

کشمیری بچی کے ساتھ زیادتی کے ملزم عدالت میں پیش

بھارت میں آئے دن خواتین اور لڑکیوں کے ریپ اور قتل کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اس جرم کی نوعیت واضح طور پر فرقہ ورانہ بھی تھی، جس سے مقامی مسلمان اور ہندو آبادیوں کے مابین جاری کشیدگی میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔

ایسے میں ریاست میں اُس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط علاقائی حکومت کے دو وزراء نے ملزمان کے حق میں مظاہرے بھی کیے تھے۔ بعد میں شدید عوامی تنقید کے نتیجے میں بی جے پی کو ان دونوں وزیروں کو اپنے عہدوں سے الگ بھی ہونا پڑ گیا تھا۔

اس جرم کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد پورے بھارت میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی تھی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے اپنے احتجاجی مظاہروں میں مقتولہ بچی کے ورثاء کے لیے فوری انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔

اس مقدمے میں عدالتی کارروائی کی تیز تر تکمیل کے لیے بھارتی سپریم کورٹ کی ہدایت پر متعلقہ عدالت نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی تھی اور ایک سالہ کارروائی کے دوران مجموعی طور پر 114 گواہوں کی شہادتیں ریکارڈ کی گئی تھیں۔

ش ج، م م